نوٹس / مشقی سوالات کا حل اردوجماعت ششم 6 پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور پاکستان

نوٹس / مشقی سوالات کا حل اردو  جماعت ششم  6پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور پاکستان

سبق نمبر:۱    حمد                                 صفحہ: 2-4

1۔ مختصر جوابات دیں۔

الف۔ حمد کسے کہتے ہیں؟
جواب:ایسی نظم ،جس میں اللہ تعالیٰ کی تعریف اور حمد وثناء بیان  کی جائے۔حمد میں اللہ تباک وتعالیٰ کی صفات حمیدہ کا ذکر  کیا جاتا ہے۔
ب۔ اس نظم میں  اللہ تعالٰی کی  کوئی  سی دو نعمتوں کا ذکر کریں؟
جواب:اس نظم میں  اللہ تعالٰی کی  جن  دو نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ  مندرجہ ذیل ہیں:

1۔دن کے وقت سورج کا اجالا۔

2۔ رات کی تاریکی میں تاروں کی چمک

ج۔ پھولوں کو عطر میں بسانے سے کیا مراد ہے؟
جواب:پھولوں کو عطر میں بسانے سے مراد ہے کہ:

1۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے  پھولوں کو خوشبو سے نواز دیا ہے۔

2۔ ہر پھول میں اس کی منفرد  خوش بو     رچی بسی ہوئی ہے۔

پھول شاخ سے الگ ہو کر بھی اپنی دل فریب خوش بو دیتا رہتاہے۔

د۔ قوی و قادر کا کیا مطلب ہے؟
جواب:قوی و قادر اللہ تعالیٰ کے دو صفاتی نام ہیں۔

قوی: اس صفاتی نام کا مطلب ہے طاقت ور، مضبوط، قوت دینے والا

قادر: اس صفاتی نام کا مطلب ہے قدرت رکھنے والا، صلاحیت رکھنےوالا، اہلیت رکھنے والا۔

2- نظم  حمد کے متن کے مطابق درست جواب کی نشان دہی ( )سےکریں

الف: خوشنمائی

ب: دانوں سے

ج: صفائی

د: ڈالی

 

3۔ درج ذیل الفاظ کے معنی لکھیں:

الفاظ معنی
خوش نمائی خوب صورتی
قادر قدرت رکھنے والا۔ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام
نرالی منفرد۔ انوکھی
حکمت سمجھ ۔ دانائی
ڈالی پودے کی نرم شاخ

6۔ ان الفاظ  کو ااپنے جملوں میں استعمال کریں:

الفاظ جملے
عجیب اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو عجیب سانچے میں ڈھال رکھا ہے۔
 عطر اللہ تعالیٰ نے پھولوں میں طرح طرح کے عطر بسائے ہیں۔
ڈالی تمام ڈالیا ں میووں سے لدی ہوئی ہیں۔
نرالی تمام پرندوں میں کوئل کی آواز نرالی ہے۔
قادر اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔

 

 

سبق نمبر:2      نعت                                                       صفحہ: 6-8

1۔ مختصر جوابات دیں۔

الف۔ “رحمت ” کس نبی کا لقب ہے؟
جواب:”رحمت ”  حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم   کا لقب ہے۔ قرآن مجید  میں  آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم  کے لیے  ” رحمت للعلمین” بھی استعمال کیا گیا ہے جس کا  مطلب ہے سارے جہانوں کے لیےسراپا  رحمت۔
ب۔  ” یتیموں کا والی” کس کو کہا گیاہے؟
جواب:” یتیموں کا والی” حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم   کو کہا گیاہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم  نے یتیموں  کے حقوق مقرر فرمائے۔ یتیموں کی کفالت و پرورش فرمائی اور اس کو اجر عظیم کا ذریعہ قرار دیا ۔اس طرح معاشرے میں یتیموں کی محرومی اور کمتری کا  خاتمہ ہوگیا۔
ج۔”حرا ” سے کیا مراد ہے؟
جواب:مکہ سے مشرق کی طرف  میدان عرفات میں ایک پہاڑ  پر ایک غار ہے جہاں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم   بعثت سے قبل عبادت   ، ریاضت اور غور و فکر کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ اس غار کا نام “حرا “ہے۔
د۔ مِس ِ خام کو کندن بنانے کا کیا مطلب ہے؟
جواب:مِس ِ خام سے مراد کچا تانبا جسے ابھی صاف نہ کیا گیا ہو۔ اور کندن سے مراد خالص سونا۔ یعنی کچے تانبے کو خالص سونے میں تبدیل کرنا۔

اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کواعلیٰ اوصاف سے متصف کرنااور  انسانیت  کی فلاح و کامرانی کا راستہ دکھانا اور ہدایت دینا۔

ہ۔ عرب پر کیا  چھائی ہوئی تھی؟
جواب:جزیرہ العرب میں جہالت چھائی ہوئی تھی یعنی اس علاقے میں مدتوں سے لوگ ایسی رسومات اور رواجوں میں جکڑے ہوئے جو سراسر جہالت اور گمراہی پر مبنی تھے۔

3- نعت کے متن کے مطابق درست جواب کی نشان دہی ( )سےکریں

الف: موج بلا کا

ب: قرنوں سے

ج: غیروں کے

د: خطا کار سے

 

5۔کالم الف میں دیے گئے الفاظ کو کالم ب میں دیے گئے متعلقہ الفاظ سے  ملائیں۔

کالم الف کالم ب
رحمت

خطا کار

سونا

مالک

معاف کرنا

کندن

والی

بخشش

درگزر

گناہ گار

جوابات: (رحمت- بخشش)( خطا کار- گناہ گار)( سونا- کندن)( مالک- والی)( معاف کرنا- درگزر)

6۔ درج ذیل الفاظ کے معنی لکھیں:

الفاظ معنی
ملجا جائے پناہ۔ وہ جگہ جہاں انسان اپنی جان بچا سکے
ماویٰ گھر ۔ ٹھکانا۔ جگہ
کایا رخ۔ حالت
قرنوں سے صدیوں سے ۔ لمبے عرصے سے
بد اندیش برا چاہنے والا

برا سوچنے والا

برا کرنے والا

 

7۔درج ذیل الفاظ کے متضاد لکھیں۔

الفاظ متضاد
مصیبت

غریب

زیر

کھرا

اِدھر

نعمت

امیر

زبر

کھوٹا

اُدھر

7۔درج ذیل الفاظ کے متضاد لکھیں۔

الفاظ تلفظ
جہل

کندن

نسخہ کیمیا

مفاسد

درگزر

جُہَل

کُندَن

نُسخَہ کِیمِیا

مَفَاسِد

دَرگُز َر

سبق نمبر:3           مادر ملت فاطمہ جناح               صفحہ: 12-15

1۔ مختصر جوابات دیں۔

الف۔ محترمہ فاطمہ جناح کب اور کہاں پیدا ہوئیں؟
جواب:محترمہ فاطمہ جناح 31 جولائی  1893 ء کو پیدا ہوئیں۔
ب۔ محترمہ فاطمہ جناح کس مقصد کے تحت قائداعظم کے ساتھ لندن گئیں؟
جواب:محترمہ فاطمہ جناح گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئیں تھیں۔ انہوں نے گول میز کانفرنس کے دوران قائد اعظم کو مفید مشورے دیے۔
ج۔ محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی ساری زندگی کس بات کے لیے وقف کردی؟
جواب:محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی ساری زندگی  قومی مفادات کے لیے وقف کردی۔
د۔ محترمہ فاطمہ جناح نے کس پلیٹ فارم  سے تعلیمی خد مات کا سلسلہ جاری کیا؟
جواب:محترمہ فاطمہ جناح نے اپوا(APWA)  (آل پاکستان ویمن اسوسی ایشن) (All Pakistan Women Association )پلیٹ فارم  سے تعلیمی خد مات کا سلسلہ جاری کیا۔ وہ اس تنظیم کی سرپرست رہیں اور ہر سطح پر  اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔
ہ۔ محترمہ فاطمہ جناح کی کون  سی خدمات آب ِ زر سے لکھنے کے لائق ہیں؟
جواب:مہاجرین کی آبادکاری  اور کشمیری  مہاجرین کی مدد اور میں محترمہ فاطمہ جناح کی  خدمات آب ِ زر سے لکھنے کے لائق ہیں۔
و۔ آپ کو کہاں دفن کیا گیا؟
جواب:محترمہ فاطمہ جناح کو مزار قائد کے احاطے میں دفن کیا گیا۔

3۔ درج ذیل  کا مفہوم واضح کریں:

الفاظ مفہوم
خیر باد کہنا کسی کام کو  ہمیشہ کے لیے ختم کردینا۔ خدا حافظ کہنا۔ چھوڑ دینا۔
دور اندیش مستقبل کے متعلق اندازہ لگانے والا۔ مستقبل کی فکر کرنے والا۔ دور کی سوچنے والا۔
شانہ بشانہ مل کر کام کرنا۔ کندھے سے کندھا ملا کر چلنا۔ ساتھ دینا۔
شرمندہ تعبیر کسی نظریے یا سوچ کو عملی جامہ پہنانا۔
کنارہ کش ہونا الگ ہوجانا۔ قطع تعلق کرنا۔ علیحدگی اختیار کرنا۔

4- درست جواب کی نشان دہی  (√)سے کریں۔

الف ب ج د ہ و
کراچی سے 1929 سیاست ممبر تھیں 17 سال بمبئی میں

5- اعراب لگا تلفظ واضح کریں۔

6-درج ذیل کے مترادف لکھیں۔

خواتین قوم اقتصادی قوت لائق حیثیت
عورتیں ملت مالی طاقت قابل مقام

 

7۔ ان الفاظ  کو ااپنے جملوں میں استعمال کریں:

الفاظ جملے
مقبولیت محترمہ فاطمہ جناح کو خواتین کے حلقے میں بڑی مقبولیت حا صل ہوئی۔
تنظیم   محترمہ فاطمہ جناح نے اپوا تنظیم پلیٹ فارم  سے تعلیمی خد مات کا سلسلہ جاری کیا۔
پیروکار   محترمہ فاطمہ جناح اسلام کی سچی پیروکار تھیں۔
جذبہ محترمہ فاطمہ جناح قومی خدمت کے جذبہ سے سرشار  تھیں۔
بے مثال محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی بے مثال صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

8- درج ذیل کے متضاد لکھیں۔

حوصلہ افزائی براہ راست قوت وفات
حوصلہ شکنی بلواسطہ ناتوانی حیات/ پیدائش

9- متن کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب لفظ کی مدد سے خالی جگہ پر کریں۔

الف ب ج د ہ و
باپ طالب علمی آب زر مادر ملت کنارہ کش بیماری

12- درج ذیل بیانات میں سے درست اور غلط کی نشان دہی کریں۔

الف ب ج د ہ
غلط درست غلط درست غلط

 

 

سبق نمبر:4      ملکہ کہسار –مری                                    صفحہ: 19-22

1۔ مختصر جوابات دیں۔

الف۔ مری میں کن مہینوں میں شدید سردی پڑتی ہے؟
جواب:مری میں مندجہ ذیل  مہینوں میں شدید سردی پڑتی ہے؛

1-   دسمبر

2-   جنوری

3-   فروروی

4-   مارچ

ب۔ راولپنڈی سے مری کتنی مسافت پر واقع ہے؟
جواب:مری، راولپنڈی سےشمال مشرق  کی طرف ،60 کلو میڑ دور،تقریباََ ایک ڈیڑھ گھنٹے کی  مسافت پر واقع ہے۔
ج۔ پاکستان کے مختلف علاقوں کے لوگ  کب مری کا رخ کرتےہیں؟
جواب:گرمی پڑتے ہی ،پاکستان کے مختلف  میدانی اور پہاڑی علاقوں کے لوگ  مری کا رخ کرتےہیں۔
د۔  مری سمندر کی سطح سے کتنی بلندی پر واقع ہے؟
جواب:مری سمندر کی سطح سے  تقریباََ ساڑھے سات ہزار(7500) فٹ     کی بلندی پر واقع ہے۔
ہ۔ مری میں برقی قمقموں کی روشنی میں کیسا محسوس ہوتاہے؟
جواب:مری میں ہر طرف برف ہی برف ہوتی ہے اس لیے  وہاں  برقی قمقموں کی روشنی میں ایسا   محسوس ہوتاہے جیسا کہ  آسمان سے تارے زمین پر اتر آئے ہوں۔
و۔  مری کے لوگوں نے انگریزوں کے خلاف کون سی جنگ لڑی؟
جواب:مری کے لوگوں نے انگریزوں کے خلاف “گوریلا  جنگ” لڑی جس میں   مسلح چھاپہ مار ٹولیوں کی شکل میں دشمن سپاہیوں پر حملہ کیا جاتاتھا۔
ز۔  انگریزو ں کو مری میں قدم جمانے کا موقع کب میسر آیا؟
جواب:  انگریزو ں کو مری میں اس وقت قدم جمانے کا موقع  میسر آیا جب مسلمانوں کو 1857ء میں ناکامی کا سامنا ہوا۔
ح۔  مری کے راستے میں کون سے درخت آتے ہیں؟
جواب:مری جاتے ہوئے راستے میں  کئی قسم کے درخت نظر آتےہیں خاص طور پر صنوبر اور  چیڑ  وغیرہ کےدرخت  بکثرت ہیں۔

2- درست جواب کی نشان دہی ( )سےکریں

الف: پنجاب کا

ب: مختلف علاقوں کے لوگ

ج: انگریزوں نے

د:  ناکامی

ہ: سڑک کے

و: خنک ہوائیں

ز: نیو مری میں

6۔ درج ذیل الفاظ کے معنی لکھیں:

الفاظ معنی
مسافت فاصلہ۔ راستہ
سیاح سیر کرنے والا
مبہوت حیران/ ہکا بکا
قابلِ دید دیکھنے کے قابل
جانثار جان قربان کرنے والے

4۔ ان الفاظ  کو ااپنے جملوں میں استعمال کریں:

الفاظ معنی جملے
صحت افزاء صحت کے لیے موزوں مری ایک صحت افزاء مقام ہے۔
نبرد آزما ہونا مقابلہ کرنا۔ جنگ کرنا مسلمان    انگریزوں کے خلاف نبرد آزما ہوئے۔
فرزندانِ اسلام اسلام کے ماننے والے فرزندانِ اسلام    اسلام کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔
قابلِ دید دیکھنے کے قابل مری کے خوب صورت مقامات  قابلِ دید ہیں۔

 

 

سبق نمبر:5        ہم ایک ہیں                            صفحہ: 24-27

1۔ مختصر جوابات دیں۔

الف۔ شاعر نے کون سی دو چیزوں کو سانجھا قرار دیا ہے؟
جواب:شاعر نے  خوشی اور غم  کو سانجھا قرار دیا ہے۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام پاکستانی  ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتےہیں۔خوشی کے اظہار کا وقت ہو یا تکلیف کی  عالم، تما م اہل وطن ایک دوسرے کا ساتھ دیتےہیں۔
ب۔ ” بند مٹھی” سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب:” بند مٹھی” سے شاعر کی  مراد اہل وطن کا  آپس میں اتحاد ہے۔ جس طرح پانچ انگلیاں  بند کرنے سے  مٹھی بنتی ہے  اسی طرح پانچوں صوبوں  اور وفاق کے ملنے سے پاک وطن پاکستان بنتاہے۔
ج۔ پاک وطن کی عزت کتنی پیاری ہے؟
جواب:ہمیں اپنے پیارے وطن پاکستان کی عزت  اپنی جان سے بھی پیاری ہے۔ قومی عظمت پر ہم اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔

3- نظم کو سامنے رکھتے  ہوئے  درست جواب کی نشان دہی ( )سےکریں

الف: پرچم

ب: ایک ہی کشتی کے

ج: اپنی آن پر

د: وطن کی

ہ: وطن میں

 

5۔ درج ذیل الفاظ کے مترادف لکھیں:

الفاظ مترادف
پرچم جھنڈا۔ عَلم
سانجھی  مشترکہ۔
چمن گلشن۔ باغ
گگن آسمان۔ فلک
راہی مسافر۔ راستہ چلنے والا
جانباز بہادر۔ جان کی بازی لگانے والا
آن عزت۔ شان

11۔ ان الفاظ  کو ااپنے جملوں میں استعمال کریں:

الفاظ جملے
دھارے تمام دریاؤں کے دھارے سمندر میں گرتے ہیں۔
چمن ہمارا وطن ایک چمن کی طرح ہے۔
شبنم صبح کے وقت شبنم کے قطرے پھولوں پر چمک رہے تھے۔
آن پاکستانی قوم اپنے وطن کی آن پر حرف نہیں آنے دے گی۔
سبق نمبر:7           یوم دفاع                             صفحہ: 36-38

1۔ مختصر جوابات دیں۔

الف۔ یوم دفاع کیوں منایا جاتاہے؟
جواب:

ستمبر 1965 ء کی ایک رات ہندوستان نے پاکستان   پر حملہ کردیا۔بہادر پاکستانی   فوج نے دشمن کے چھکے چھڑا دیے۔ یوم دفاع اس کی یاد میں منایا جاتاہے۔ب۔ لاہور میں یوم دفاع کی تقریب کہاں منعقد ہوتی ہے؟جواب:

یوم دفاع کی یہ پروقار اور اہم تقریب ہر سال فور ٹریس سٹیڈیم لاہور میں منعقد کی جاتی ہے۔ج۔ فضا کس چیز سے گونج رہی تھی؟جواب:

فضا ،لاؤڈ سپیکر پر جو ترانے پڑھے جارہے تھے ان   ترانوں سے گونج رہی تھی۔د۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز کیسے ہوا؟جواب:

تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلا م پاک سےہوا۔ہ۔ تلاوت اور نعت کے بعد کیا پڑھا گیا؟جواب:

تلاوت اور نعت کے بعد قومی ترانہ پڑھا گیا ۔تمام حاضرین ترانے کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔و۔ ناظرین نے فوجی جوانوں کو کس طرح داد تحسین دی؟جواب:

ناظرین نے بڑے جوش و خروش سے تالیاں بجا بجا کر ،فوجی جوانوں کو داد تحسین پیش کی۔

4۔ درج ذیل الفاظ کے معنی لکھیں:

الفاظ معنی
سرمستی بےخودی۔ نشے کا عالم
سحر انگیز جادو بھرا
جری بہادر۔ نڈر۔ دلیر
داد دینا دل کھول کر تعریف کرنا۔ حوصلہ افزائی کرنا
سکہ بٹھانا رعب قائم کرنا۔ دھاک بٹھانا
اِمسال اس سال۔

2۔ ان الفاظ کو ااپنے جملوں میں استعمال کریں:

الفاظ معنی جملے
چھکے چھڑا دینا ہوش اڑانا ستمبر 1965 ء کی جنگ نے دشمن کے چھکے چھڑا دیے۔
جنون سرد پڑنا جذبہ ختم ہونا جلد ہی ، جنگ میں   دشمن کا جنون سرد پڑ گیا۔
جوق در جوق گروہ در گروہ۔ ٹولیوں میں جلوس میں لوگ جوق در جوق شامل ہوتے گئے۔
سکہ بٹھانا رعب قائم کرنا ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان نے   دشمن پراپنا سکہ بٹھا دیا۔
میلی آنکھ سے دیکھنا بری آنکھ سے   دیکھنا اب کسی کی جرأت نہیں کہ میلی آنکھ سے دیکھے۔
نیست و نابود کرنا تباہ و برباد کرنا میلی آنکھ سے دیکھنے والے کو ہم نیست و نابود کردیں گے۔
سبق نمبر:8       پرانا کوٹ                             صفحہ: 40-42

1۔ مختصر جوابات دیں۔

الف۔ اس نظم میں کون سی دو تاریخی شخصیتوں کا ذکر آیا ہے؟
جواب:

اس نظم   میں جن دو تاریخی شخصیتوں کا ذکر آیا ہے وہ یہ ہیں:

1-   ایک پرتگالی   دریافت کرنے والا (واسکو ڈی   گاما(D. Vasco Da Gama)

2-   اطالوی تاجر سیاح،     مارکو پولو(Marco Polo)ب۔ کوٹ پر چکنائی کے دھبوں کا باعث کیا ہے؟جواب:

کوٹ پر چکنائی کے دھبوں کی وجہ یہ ہے کہ اس کوٹ کو حلوائی بھی پہن چکا ہے۔ چونکہ حلوائی کا کام ہی تیل اور چکنائی سے ہوتا ہے اس لیے کوٹ پر چکنائی کے دھبے پڑ گئے۔ج۔ کوٹ کو ” تاریخ ” کا ورق کیوں کہا گیا ہے؟جواب:

کوٹ کو ” تاریخ ” کا ورق اس لیےکہا گیا ہے کیونکہ یہ بہت ہی پرانا ہےاور اس نے بھی تاریخ (History)کے گذشتہ سالوں کی طرح بہت سے دور دیکھے ہیں۔د۔ پرانے کوٹ کو کون کون پہن چکےہیں؟جواب:

پرانے کوٹ کو مندرجہ ذیل   خاص و عام لوگ پہن چکےہیں:

1-   واسکو ڈی گاما

2-      مارکو   پولو

3-   ترک

4-   ایرانی

5-   حلوائی

3۔ درج ذیل الفاظ کے معنی لکھیں:

الفاظ معنی
قلیل تھوڑا۔ بہت کم
آفتاب سورج
وضع شکل۔ بناوٹ۔ رنگ ڈھنگ
جامہ لباس
مثل کی طرح۔ مثال

8۔ ان الفاظ کو ااپنے جملوں میں استعمال کریں:

الفاظ جملے
مثل ہماراوطن ایک خوب صورت چمن کی مثل ہے۔
عبرت دنیا کی تاریخ سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔
غنیمت والدین کا سایہ بچوں کے لیے غنیمت ہے۔
آفتاب دوپہر کو آفتاب پوری آب و تاب سے چمک رہاتھا۔
قلیل برکت کی وجہ سے قلیل چیز بھی کافی ہوجاتی ہے۔
سبق نمبر:9     گل صنوبر کی کہانی                                 صفحہ: 47 -49

1۔ مختصر جوابات دیں۔

الف۔ محسن پور کے آس پاس کے علاقوں میں کون سی وباء پھیلی ہوئی تھی؟
جواب:

محسن پور   کے آس پاس کے علاقوں میں بلوچوں کی بستیاں تھیں جہاں طاعون کی وباء پھیلی ہوئی تھی۔ب۔ گل اور صنوبر کا آپس میں کیا رشتہ تھا اور وہ ظہیرہ کے گھر کیوں گئے؟جواب:

گل اور صنوبر کا آپس میں بہن بھائی تھے۔ وہ دونوں     کھانے کی تلاش میں ظہیرہ کے گھر گئےتھے۔ج۔ ظہیرہ کو اپنے گناہ کا کفارہ کیسے ادا کرنا چاہتی تھی؟جواب:

ظہیرہ کو اپنے گناہ کا احساس ہ گیا تھا ۔وہ گل کو آزاد کرنا چاہتی تھی تاکہ اس طرح اپنے گناہ کا کفارہ کرسکے۔د۔ صنوبر ہاتھ میں خنجر لے کر کس کو قتل کرنا چاہتی تھی ؟جواب:

صنوبر ہاتھ میں خنجر لے کر ظہیرہ کو قتل کرنا چاہتی تھی جس نے اس کے بھائی گل کو قید کیا ہوا تھا۔و۔ نصیر کون تھا اور اس کی حالت کیوں خراب ہوتی جارہی تھی؟جواب:

نصیر ،ظہیرہ کا بڑا لڑکا تھا۔ اس کو سانپ نے کاٹ لیا تھا زہر کے اثر سے اس کی حالت بگڑتی جارہی تھی۔ہ۔ اس کہانی میں کس قوم کی خودداری اور غیرت بیان کی گئی ہے؟جواب:

کہانی   “گل صنوبر کی کہانی “میں بلوچ قوم کی خودداری اور غیرت بیان کی گئی ہے۔

2۔ درج ذیل الفاظ کے معنی لکھیں:

الفاظ معنی
ہو کا عالم اجاڑ۔ اجڑی حالت
آدم زاد انسان۔ آدمی۔ آدم علیہ السلام کے بیٹے۔
بے گور کفن بغیر کفن اور دفن کے
خوف زدہ ڈرا ہوا۔ ڈر کا مارا
مار گزیدہ جسے سانپ نے ڈساہو

5۔ ان الفاظ کو ااپنے جملوں میں استعمال کریں:

الفاظ جملے
سایہ منڈلانا محسن پور کے لوگوں پر موت کا سایہ منڈلاتا رہتا تھا۔
ہو کا عالم ہونا بستی میں ہر طر ف ہو کا عالم تھا۔
تان لگانا بلوچ لڑکا موت کے خوف کو بھلانے کے لیے گیت کی تان لگاتا رہتا تھا۔
آدم زاد بستی میں دور دور تک کوئی آدم زاد نظر نہیں آتا تھا۔
تمتما اٹھنا ظہیرہ کی بات سن کر صنوبر   کا چہرہ غصے سےتمتما اٹھا۔
خوف زدہ دونوں بہن بھائی بہت زیادہ خوف زدہ تھے۔
مارگزیدہ صنوبر ایسا پودے کی چند پتیاں لائی جو مارگزیدہ کے   علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
انتقام کی آگ بھڑکنا صنوبر کے دل میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔
تیر کی طرح لگنا صنوبر کے دل میں ظہیرہ کی باتیں تیر کی طرح لگیں۔
فرشتہ اجل محسن پورکے لوگوں کو ہر وقت فرشتہ اجل کا ڈر لگا رہتا تھا۔
سبق نمبر:۱0           شیخ سعدی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ       کے اقوال                           صفحہ: 51-53

1۔ مختصر جوابات دیں۔

الف۔ شیخ سعدی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ     کا اصل نام کیا تھا؟
جواب:

شیخ سعدی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ     کا اصل نام ابو محمد مصلح الدین مشرف ابن عبداللہ شیرازی تھا۔ب۔ شیخ سعدی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ     کو کس لقب سے یاد کیا جاتا ہے؟جواب:

شیخ سعدی شیرازی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ     کو “حکیم مشرق” لقب سے یاد کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے اہل مشرق کا دانا شخص۔ج۔ انھیں حکیم مشرق کے علاوہ اور کیا کہاجاتا ہے؟جواب:

شیخ سعدی شیرازی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ     کو حکیم مشرق کے علاوہ ” معلم اخلاق “ بھی کہاجاتا ہے۔د۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کس کام میں گزارا؟جواب:

شیخ سعدی شیرازی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ     نےاپنی اکیاسی بیاسی سالہ زندگی کا بیشتر حصہ دنیا کی سیر و سیاحت کرنے میں گزارا۔ہ۔ شیخ سعدی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ     کی نظم و نثر کی دو کتابوں کے نام بتائیں؟جواب:

شیخ سعدی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ     نے نظم و نثر میں بہت   سا کلام لکھا مگر آپ کی مندرجہ ذیل دو کتابیں بہت مشہور ہوئیں؛

1-   نظم -بوستان (پھلوں کا باغ) 1257 ء

2-   نثر-گلستان (پھولوں کا باغ) 1258ء

3۔ درج ذیل الفاظ کے مفہوم لکھیں:

الفاظ مفہوم
حکیمِ مشرق دانا اور عقلمند انسان جس کا تعلق مشرقی علاقوں سےہو۔
معلمِ اخلاق اخلاق کی تعلیم دینےوالا۔ اچھی باتیں سکھانے والا
حکمت و دانش عقل مندی۔ دانائی و بصیرت کی باتیں
ادبِ عالیہ مستند اور معیاری ادب ۔ ادب سے مراد علم زبان ہے جس میں نحو، لغت، انشاء، معانی اور بیان شامل ہیں۔
سیر و سیاحت سیرو تفریح۔ سفر

4۔ درج ذیل الفاظ کے معنی لکھیں:

الفاظ معنی
مال دولت
صحبت دوستی۔ ہمراہی۔ ساتھ۔مجلس۔ مل بیٹھنا
حق شناس سچ اور حق کو پہچاننے والا
دانش سمجھ بوجھ ۔ عقل مندی

7۔ ان الفاظ کو ااپنے جملوں میں استعمال کریں:

الفاظ جملے
مشعل بے عمل عالم ایسے ہے جیسے اندھے کے ہاتھ میں     مشعل۔
نعمت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کریں۔
قدر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کریں۔
لقب حکیمِ مشرق شیخ سعدی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ         کا لقب ہے۔
حاسد حاسد کبھی فلاح نہیں پاسکتا۔
سبق نمبر:1۱           بادل کی گیت                                                صفحہ: 55-57

1۔ مختصر جوابات دیں۔

الف۔ بادل کا گھر کہاں ہے؟
جواب:

شاعر کہتاہے کہ بادل کا گھر سمندر کی گہرائیوں میں ہے۔

اس سے مراد یہ ہے کہ سمندر کا پانی بخارات کی صورت میں اوپر اٹھ کر بادل کی صورت اختیار کرلیتاہے۔ب۔ بادل کو ایک دن تپتی شعاؤں نے کیا کہا؟جواب:

ایک دن تپتی شعاؤں نے بادل سے کہا:

آ، ہم تمھیں ستارے دکھاتی ہیں اور نشیلی ہوائیں تجھے اڑائیں گی۔

اس سے مراد یہ ہےکہ جب سورج کی شعائیں سمندر پر پڑتی ہیں تو پانی بخارات بن کر اوپر اٹھتاہے اور بادل کی شکل اختیار کرلیتاہے۔ج۔ بادل نے کس دھن میں اپنا وطن چھوڑ دیا؟جواب:

بادل نے ستارے دیکھنے اور اونچی ہوا میں اڑنے کی دھن   میں اپنا وطن چھوڑ دیا۔د۔ بادل تھک گیا تو اس نے کیا کیا؟جواب:

بادل تھک گیا تو و ہ زور سے بلبلایا اور اس نے ہواؤں کو بجلی کا کوڑا دکھایا۔ہ۔ بادل کے رونے سے کیا مراد ہے؟جواب:

بادل کے رونے سے مراد ہے بارش کا برسنا۔و۔ بادل کے رونے سے دنیا کیوں مسکراتی ہے؟جواب :

بادل کے رونے سے چونکہ بارش کا برسنا مراد ہے اور بارش لوگوں کے لیے خوشی کا باعث ہوتی ہے اس لیے شاع کہتا ہے کہ   بادل کے رونے سے دنیا مسکراتی ہے۔ز۔ بادل پر آخر کار کون سی گھتی کھلی؟جواب:

بادل پر آخر کار یہ گھتی کھلی کہ سب پانی ندی نالوں   اور دریاؤں سے ہوتا ہوا بالآخر سمندر میں جاگرے گا اور مجھے سکون ملے گا۔

4۔ درج ذیل الفاظ کے مفہوم لکھیں:

الفاظ مفہوم
تپتی شعاعیں سورج کی تیز گرم کرنیں
نشیلی ہوائیں مست کردینےوالی ہواجس کےسروراورسکون میں انسان کھو جائے
شوخ پریاں چمکیلی ہوائیں
بلبلانا گڑگڑانا/تڑپنا
گتھی کھلنا الجھن/ مشکل آسا ن کرنا
دن پھرنا حالات بہتر ہونا

8۔ درج ذیل الفاظ کے مترادف لکھیں:

الفاظ مترادف
آفت مصیبت
پربت شمال۔ مراد پہاڑ
شاخ ٹہنی
بلبلایا گڑگڑایا۔ تڑپا
رنج دکھ
دھرتی زمین۔

7۔ ان الفاظ کو ااپنے جملوں میں استعمال کریں:

الفاظ جملے
آنسو بوڑھی عورت کی دکھ بھر ی کہانی سن کر میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
پربت ہندی میں چارسمتوں کے نام :دکھن۔ پربت۔ پورب۔ پچھم
جھونکا ہوا کا تیز جھونکا جھومتاہوا آیا۔
فانی دنیا کی ہر چیز فانی ہے۔
راز دوسروں سے اپنا راز چھپا کر رکھو۔
سبق نمبر:2 ۱           سائنس کے کرشمے                           صفحہ: 61-63

1۔ مختصر جوابات دیں۔

الف۔ انسان نے سائنس کا علم کیسے   سیکھا؟
جواب:

پتھروں کو رگڑ کر آ گ جلانے اور اپنے جسم کو کپڑوں سے ڈھانپنے اور دیگر ارد گر د کی چیزوں کا شعور حاصل کرنے سےانسان نے سائنس کا علم سیکھا۔ب۔ انسان نے زمین کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے   کے بعد کیا کیا؟جواب:

زمین کے سربستہ رازوں سے پردہ   اٹھانے کے بعد انسان نے چاند تک رسائی حاصل کی ۔ج۔ انسان نے کس طرح اپنی زندگی کو پر آسائش اور سہل بنایا؟جواب:

انسان نےسائنس کے علم کی بدولت   سمندر کی تہ میں اتر اور زمین کے چھپے ہوئے خزانے نکالا اور   اس طرح اپنی زندگی کو پر آسائش اور سہل بنایا۔د۔ صنعت و حرفت کا دارو مدار کس چیز پرہے؟جواب:

صنعت و حرفت کا دارو مدار بجلیپرہے۔ہ۔ سائنس کی ہلاکت خیز ایجادات کون سی ہیں؟جواب:

سائنس کی ہلاکت خیز ایجادات میں ہتھیار، گولہ بارود، ایٹم بم، ہائیڈروجن بم وغیرہ شامل ہیں۔و۔ یہ زمین اور معاشرہ کس طرح امن اور محبت اور بھائی چارے کا نمونہ بن سکتےہیں؟جواب:

اگر ہم سائنسی ایجادات   کوانسانی فلاح و بہبود اور بہتری کے لیے استعمال کریں تو یہ زمین اور معاشرہ   امن ، محبت اور بھائی چارے کا نمونہ بن   سکتےہیں۔

4۔ ان الفاظ کو ااپنے جملوں میں استعمال کریں:

الفاظ معنی جملے
چشم پوشی کرنا نظر انداز کرنا والدین اکثر     اپنے بچوں کی غلیطوں سے چشم پوشی کرتے ہیں۔
بیش بہا قیمتی علم ایک بیش بہا دولت ہے۔
مرہون منت بدولت آج کی پر آسائش زندگی سائنس کی مرہون منت ہے۔
پیغام رسانی بات پہنچانا آج کل ہم پیغام رسانی کے جدید ذرائع سے مستفید ہورہے ہیں۔
فلاح و بہبود کامیابی۔بھلائی اور بہتری ہمیں چاہیے کہ ہم انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوشش کریں۔
سبق نمبر:3 ۱           صحت و صفائی                           صفحہ: 66-69

1۔ مختصر جوابات دیں۔

الف۔ مکالمہ “صحت اور صفائی” میں کون کون سے کردار شامل ہیں؟
جواب:

مکالمہ “صحت اور صفائی” میں شامل کردار:

1-   استانی صاحبہ(مس سعدیہ)

2-   طالبات( حمیرا، سمیرا، خدیجہ، فاطمہ، مریم، رانی، آمنہ، ہاجرہ، سعیدہ)

3-   طلباء( یٰسین، عالم، سحاب، اختر)ب۔ مس سعدیہ نے سکول میں کیا منانے کا فیصلہ کیا؟جواب:

مس سعدیہ نے سکول میں ہفتہ صفائی منانے کا فیصلہ کیا۔ج۔ صحت مند دماغ کے لیے کون سی چیز ضروری ہے؟جواب:

صحت مند دماغ کے لیے صحت مند جسم ضروری ہے۔د۔ ہم کیسے صحت مند رہ سکتےہیں؟جواب:

صحت مند رہنے کے لیے مندرجہ ذیل امور کا خاص خیال رکھیں:

1-   جسم ، لباس اور دانتوں کی صفائی رکھنا۔

2-   متوازن غذا کا استعمال کرنا۔

3-   کھانے کا مناسب   طریقہ سے پکا ہونا۔

4-   پکے ہوئے پھلوں کا استعمال کرنا۔

5-   کچی سبزیوں ( گاجر ، مولی، چقندر وغیرہ)کا استعمال کرنا۔ہ۔ صحت مند جسم کے لیے کیسی خوراک کی ضرورت ہے؟جواب:

صحت مند جسم کے لیے متوازن غذا خوراک کی ضرورت ہےو۔ متوازن غذا سے کیا مراد ہے؟جواب:

متوازن غذا سے مراد ایسی غذا ہے جس میں؛

1-   حیاتین کی صحیح مقدار شامل ہو۔

2-   کھانا زیادہ پکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی زیادہ کچاہو۔ز۔ دانت صاف کرنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟جواب:

         تازہ مسواک سے دانت صاف کرنا   سنت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم     ہے۔

7۔ درج ذیل الفاظ کے معنی لکھیں:

الفاظ معنی
آگاہ کرنا خبر دار کرنا
ضائع کرنا خراب کرنا۔ برباد کرنا
بھلائی بہتری۔اچھائی
کراہت ناپسندیدگی ۔ نفرت
تاکید کرنا زور دے کر کہنا۔ اصرار کرنا

2۔ ان الفاظ کو ااپنے جملوں میں استعمال کریں:

الفاظ جملے
آگاہ استاد صاحب نے بچوں کو امتحان کی تاریخ سے آگاہ کیا۔
بھلائی اچھا انسان دوسروں کی بھلائی کے لیے کام کرتا ہے۔
فضا آج فضا صاف ہے۔
کراہت میلے کپڑوں سے دوسروں کو کراہت ہوتی ہے۔
ذمے دار ہمیں ایک ذمے دار شہری کی طرح ملک
     

سبق 14

ہمارا وطن باب نمبر 14
مشق:
1۔ مختصر جواب دیں۔
(الف) اس نظم میں ٹیپ کا مصرع کون سا ہے؟
جواب: اس نظم میں ٹیپ کا مصرع یہ ہے ’’پیارا پیارا وطن ہے ہمارا وطن‘‘
(ب) وطن کے جیالے بہادر جواں کس کے اشارے سے جان لٹا دیتے ہیں؟
جواب: وطن کے جیالے بہادر جواں وطن کے اشارے سے جان لٹا دیتے ہیں۔
(ج) شاعر نے کس کو رشکِ فردوس کہا ہے؟
جواب: شاعر نے سارے وطن کو رشکِ فردوس کہا ہے۔
(د) وطن کی کھیتیاں کیا اگلتی ہیں؟
جواب: وطن کی کھیتیاں سونا اگلتی ہیں۔
(ہ) وطن کی ندیاں کیا لٹاتی ہیں؟
جواب: وطن کی ندیاں پگھلی چاندی لٹاتی ہیں۔
2۔ درج ذیل مرکبات کا مفہوم واضح کریں۔
دلکش سہارا ، سرمئی وادیاں ، دل نشیں، رشک فردوس، حسیں پاسبان
جواب:
مرکبات
معانی
جملوں میں استعمال
دلکش سہارا
خوبصورت، آسرا
ہمارا پیارا وطن ہماری آرزوؤں کا دلکش سہارا ہے۔
سرمئی وادیاں
سرمے کے رنگ کی وادیاں
کشمیر کی سرمئی وادیاں قابل دید ہیں۔
دل نشیں
دل پر نقش ہونے والا
ہمارے پیارے وطن میں دل نشیں نظارے ہیں۔
رشکِ فردوس
جنت کا رشک کرنا
میرا پیارا وطن رشکِ فردوس ہے۔
حسین پاسبان
خوبصورت محافظ
جیالے اور بہادر نوجوان حسین وطن کے حسین پاسبان ہیں۔
3۔ درج ذیل الفاظ کے مترادف لکھیں۔
آرزو ، سہارا، چمن، بن ، بہادر
جواب: الفاظ مترادف
آرزو تمنا
سہارا آسرا
چمن گلستان
بن جنگل
بہادر دلیر

4۔ نظم ’’ہمارا وطن‘‘ کو پیش نظر رکھتے ہوئے درست جواب کی نشاندہی ( ) سے کریں۔
(الف) ہمارا سارا وطن کیا ہے؟
(i) جنت (ii) بہشت
(iii) فردوس (iv) رشکِ فردوس
(ب) وطن کی کون سی چیز بہت دل نشیں ہے؟
(i) چمن (ii) دریا
(iii) بن (iv) جنگل
(ج) وطن کی ندیاں کیا لٹاتی ہیں؟
(i) تیل (ii) ہیرے
(iii) چاندی (iv) سونا
(د) ہمارے وطن کی کھیتیاں کیا اگاتی ہیں؟
(i) گندم (ii) چاول
(iii) چاندی (iv) سونا

(ہ) ہم حسین انجمن کے کیسے پاسبان ہیں؟
(i) حسین (ii) خوبصورت
(iii) بہادر (iv) دلیر
جواب: (الف) iv (ب) iii (ج) iii (د) iv (ہ) i
5۔ اشعار کے آخر میں استعمال ہونے والے ہم آواز الفاظ کو قافیہ کہتے ہیں مثلاً:
ہمارا، سہارا وغیرہ ۔ اس نظم کے آخری بند میں کون سے الفاظ قافیہ ہیں؟
جواب: اس نظم کے آخری بند میں ’’تارا، ہمارا‘‘ الفاظ قافیہ ہیں۔
6۔ شاعر نے اس نظم میں وطن کے جیالے بہادر جوانوں کی کیا خوبیاں بیان کی ہیں؟
جواب: شاعر نے اس نظم میں وطن کے جیالے بہادر جوانوں کی خوبیاں یہ بیان کی ہیں کہ وہ اپنے پیارے وطن کے محافظ ہیں اور اپنے وطن کے لئے جانیں قربان کرنے کے لئے بھی تیار ہیں۔
7۔ اعراب لگا کر تلفظ واضح کریں۔
دلکش ، ندیاں، دل نشیں، رشک فردوس، ملک و ملت
جواب: دلکش، ندیاں، دل نشیں، رشک فردوس، ملک و ملت
8۔ جمع کے واحد اور واحد کے جمع لکھیں۔
کھیتی، ندی، وادی، تارا، اشارا، ملت
جواب: واحد جمع
کھیتی کھتیاں
ندی ندیاں
وادی وادیاں
تارا تارے
اشارا اشارے
ملت ملل

9۔ نظم ’’ہمارا وطن‘‘ کا مرکزی خیال تحریر کریں۔
جواب: یہ وطن ہمیں ہر چیز سے زیادہ عزیز اور پیارا ہے۔ یہ ہماری آرزوؤں کا سہارا ہے۔ ہم اس کے رکھوالے ہیں اور ہم اس کے لئے اپنی جان بھی قربان کر دیں گے۔
10۔ اس نظم کے دوسرے بند میں ’’سونا اگاتی ہوئی کھیتیاں‘‘ سے کیا مراد ہے؟
جواب: اس نظم کے دوسرے بند میں ’’سونا اگاتی ہوئی کھیتیاں‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ہمارے وطن کے کھیت سونے کی طرح قیمتی ، نقد آور فصلیں اگاتے ہیں۔
11۔ مناسب الفاظ لگا کر مصرعے مکمل کریں۔
(الف) آرزوؤں کا دلکش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ب) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے سینے کے ارمان ہیں۔
(ج) سرمئی وادیاں، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چمن
(د) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے آج سارا وطن
(ہ) جاں لٹا دیں جو کر دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وطن
جواب: (الف) سہارا (ب) ملک و ملت (ج) لہلہاتے (د) رشک فردوس (ہ) اشارا
12۔ کالم (الف) میں دئیے گئے الفاظ کو کالم (ب) کے متعلقہ الفاظ سے ملائیں۔
کالم (الف) کالم (ب)
سونا رنگ
پھول کھیت
سرمئی بہادر
لہلہاتے چاندی
جیالے چمن
جواب:
سونا ، چاندی ۔ پھول ، چمن ۔ سرمئی ، رنگ ۔ لہلہاتے ، کھیت ۔ جیالے ، بہادر

سبق 15

نسان اور اس کا ماحول باب نمبر 15
مشق:
1۔ مختصر جواب دیں۔
(الف) گزشتہ صدی میں کتنی ایجادات ہوئی ہیں؟
جواب: جس قدر ایجادات پچھلی صدی میں ہوئی ہیں اتنی ایجادات پچھلی تمام صدیوں میں مل کر بھی نہیں ہوئیں۔
(ب) سائنسی ایجادات نے انسانی زندگی پر کیسے اثرات مرتب کیے ہیں؟
جواب: سائنسی ایجادات نے جہاں انسانی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کئے ہیں وہیں اس کے منفی اثرات سے انکار بھی ممکن نہیں۔
(ج) سائنسی ترقی سے ہماری زندگی میں کون کون سی سہولتیں پیدا ہوئی ہیں؟
جواب: سائنسی ترقی سے ہماری زندگی بہت سی بنیادی سہولتوں سے آشنا ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر ہفتوں اور مہینوں میں کیا جانے والا سفر دنوں اور گھنٹوں میں ہونے لگا ہے۔ کام کے معیار اور مقدار میں اضافہ ہوا ہے۔
(د) سائنسی ترقی سے ہماری زندگی میں کون کون سے مسائل پیدا ہوئے ہیں؟
جواب: ان مسائل میں سے ایک اہم اور بنیادی مسئلہ آلودگی کا ہے۔ یہ زمین، پانی اور ہوا کو ضرر رساں بنا رہی ہے، جس کی وجہ سے نئی نئی بیماریاں انسانی زندگی کو اپنے گھیرے میں لے رہی ہیں۔
(ہ) آلودہ پانی سے کون سے مسائل جنم لے رہے ہیں؟
جواب: آلودہ پانی مٹی اور زیر زمین پانی کو بری طرح متاثر کر رہا ہے، اس وجہ سے آج ہیضہ، ٹائی فائیڈ، یرقان، اسہال اور کئی طرح کی دوسری بیماریاں عام ہیں۔ زہریلے مادے مٹی کی قوت نمو کو بنجر بنا رہے ہیں۔ زمین سیم، تھور اور بنجر پن کا شکار ہوتی جا رہی ہیں۔ زمین کی زرخیزی میں فرق آ رہا ہے۔ فصلوں کے معیار اور مقدار میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔

(و) دھواں ہماری فضا کو کس طرح متاثر کر رہا ہے؟
جواب: دھواں ہماری فضا کو آلودہ کر رہا ہے۔ خالص ہوا میں زہریلی ہوا کی آمیزش سے فضائی پاکیزگی اور خالص پن میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ یوں انسان پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور کئی قسم کی بیماریاں مثلاً دمہ، کینسر اور دل کے عوارض عام ہیں۔
2۔ ہم مختلف آلودگیوں پر کس طرح قابو پا سکتے ہیں؟
جواب: آلودگی پر قابو پانے کیلئے ہمیں اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا چاہیے۔ فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والے زہریلے پانی اور فالتو مادوں کو ختم کرنے کا مناسب انتظام کرنا چاہیے۔ تا کہ یہ نقصان دہ مادے پھیل کر ہماری زمین کو برباد نہ کریں۔ اسی طرح زہریلے پانی کو آبی ذخائر سے نہیں ملنے دینا چاہیے تا کہ وہ اس نعمت کو خراب نہ کر سکے۔ آلودگیوں پر قابو پانے کے لئے ہمیں موثر تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ معاشرے کے تمام طبقوں میں ان کا شعور پیدا ہونا چاہیے تا کہ لوگ اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے مثبت کردار ادا کر سکیں۔
3۔ اعراب کی مدد سے درج ذیل کا تلفظ واضح کریں۔
عکاس، وابستگی، ایجادات، سہولت ، آمیزش
جواب: عکاس، وابستگی، ایجادات، سہولت ، آمیزش
3۔ درج ذیل الفاظ کے مترادف لکھیں۔
مدافعت ۔ ضر ررساں ۔ قوت نمو ۔ وابستگی
جواب: الفاظ مترادف
مدافعت دفاع
ضرر رساں نقصان دہ
قوت نمو قوت افزائش
وابستگی تعلق

5۔ سبق ’’انسان اور اس کا ماحول‘‘ کے مطابق درست جواب کی نشاندہی ( ) سے کریں۔
(الف) انسان اس زمین پر کب سے زندگی گزار رہا ہے؟
(i) روز اول سے (ii) زمانہ قدیم سے
(iii) برسوں سے (iv) صدیوں سے
(ب) پوری دنیا کا بہت بڑا مسئلہ کیا ہے؟
(i) غربت (ii) بیماری
(iii) آلودگی (iv) ایندھن
(ج) اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں: زمین، پانی اور
(i) روشنی (ii) فصلیں
(iii) خوراک (iv) ہوا
(د) شور سے کون سا نظام بری طرح متاثر ہوتا ہے؟
(i) معاشی (ii) اعصابی
(iii) معاشرتی (iv) ملکی
(ہ) بنجر پن اور سیم و تھور کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔
(i) سونا اگلنے والی زمین (ii) چاندی اگلنے والی زمین
(iii) فصلیں اگلنے والی زمین (iv) گندم اگلنے والی زمین
(و) شور کی آلودگی سے انسانوں میں ختم ہو جاتی ہے: بربادی، متانت اور
(i) برداشت (ii) تحمل
(iii) رواداری (iv) صبر
جواب: (الف) iv (ب) iii (ج) iv (د) ii (ہ) i (و) ii
6۔ درست اور غلط بیانات کی نشاندہی کریں۔
(الف) انسان صدیوں سے اس زمین پر زندگی گزار رہا ہے۔ درست ؍ غلط
(ب) انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثر نہیں ہوتا۔ درست ؍ غلط
(ج) انسان ماحول سے بے خبر ہو کر زندگی کی خوبصورتیوں کو حاصل کر سکتا ہے۔ درست ؍ غلط
(د) سائنس کے منفی اثرات سے انکار ممکن نہیں۔ درست ؍ غلط
(ہ) صنعتی ترقی نے آلودگی کے مسائل میں کمی کی ہے۔ درست ؍ غلط
(و) آلودگی دنیا کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ درست ؍ غلط
(ز) شور معاشی نظام کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ درست ؍ غلط
(ح) انسان اور زمین لازم و ملزوم نہیں ہیں۔ درست ؍ غلط
جواب: (الف) درست (ب) غلط (ج) غلط (د) درست (ہ) غلط (و) درست
(ز) درست (ح) غلط
7۔ درج ذیل الفاظ کے متضاد لکھیں۔
بنجر ۔ منفی ۔ براہ راست ۔ شور ۔ مضر
جواب: الفاظ متضاد
بنجر زرخیز
منفی مثبت
براہ راست بالواسطہ
شور خاموشی
مضر مفید
8۔ درج ذیل واحد الفاظ کے جمع اور جمع کے واحد لکھیں۔
عوارض ۔ معیار ۔ تدبیر ۔ اشیاء ۔ مسائل
واحد جمع
عارضہ عوارض
معیار معیارات
تدبیر تدابیر
شے اشیاء
مسئلہ مسائل
9۔ درج ذیل الفاظ کو جملوں میں اس طرح استعمال کریں کہ ان کا مفہوم واضح ہو جائے۔
عکاس ۔ وابستگی ۔ مرتب ۔ معیار ۔ انقلاب
جواب:
الفاظ
معانی
جملوں میں استعمال
عکاس
مصور ، فوٹو گرافر
زمین کے ساتھ انسان کا رشتہ دوستانہ فضا کا عکاس ہے۔
وابستگی
تعلق
زمین کے ساتھ انسان کی وابستگی بڑی پرانی ہے۔
مرتب
ترتیب کرنا، اکٹھا کرنا
شور ہمارے اعصاب، ذہن اور جسم پر انتہائی برے اثرات مرتب کرتا ہے۔
معیار
کسوٹی، درجہ
سائنسی ترقی کی بدولت کام کے معیار میں اضافہ ہوا ہے۔
انقلاب
تبدیلی، تغیر و تبدل
سائنسی ترقی نے صنعت و حرفت کے میدان میں انقلاب پید اکر دیا ہے۔
10۔ کالم (الف) کالم (ب)
حسن نظام
لازم غریب
اعصابی جمال
عجیب ایجادات
سائنسی ملزوم
جواب:
حسن، جمال ۔ لازم ، ملزوم ۔ اعصابی ، نظام ۔ عجیب ، غریب ۔ سائنسی ، ایجادات
11۔ ’’سائنسی ایجادات کے فائدے اور نقصانات‘‘ کے موضوع پر ایک مضمون تحریر کریں۔
جواب: سائنسی ایجادات کے فائدے اور نقصانات
سائنسی ایجادات نے انسانی زندگی کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جو سائنس کے اثرات سے محروم ہو۔ انسان سمندر کی گہرائیوں میں چھپے خزانوں تک جا پہنچا ہے۔ سمندر کی تہ میں اتر کر اور زمین کے سینے کو چیر کر اس میں سے سونا، ہیرے، موتے اور دیگر قیمتی معدنیات دریافت کی ہیں۔ زمین کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کے بعد چاند تک رسائی حاصل کر لی ہے اور آج مریخ اور دوسری دنائیں انسان کی تسخیر کی لپیٹ میں ہیں۔ انسان آج آواز کی رفتار بھی بھی زیادہ تیزی سے اڑنے والے جہازوں میں بیٹھا محوِ پرواز نظر آتا ہے۔ سائنسی ایجادات کے سفر میں پہیا کی ایجاد سے انقلاب برپا ہو گیا۔ آج کا انسان اونٹوں، گھوڑوں، گدھو ں اور دوسرے جانوروں پر سواری کرنے والے ماضی کے انسان سے کوسوں آگے نظر آتا ہے۔ ماضی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے میں کئی کئی دن لگ جاتے تھے اور راستے میں قافلے لٹ بھی جاتے تھے۔ آج بسیں، کاریں، ریل گاڑیاں اور ہوائی جہاز ایجاد ہونے سے دنوں کا سفر گھنٹوں اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ ماضی میں دور دراز علاقوں تک پیغام رسانی کا کام بھی بہت پیچیدہ تھا لیکن اب ٹیلی فون ، ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ جیسی ایجادات کے باعث دنیا کے ایک کونے میں بیٹھا انسان دوسرے کونے میں بیٹھے انسان سے نہ صرف باخبر رہتا ہے بلکہ اسے بولتا، چلتا پھرتا دیکھ بھی سکتا ہے۔ انٹرنیٹ، ٹیلی فون اور فیکس کے ذریعے انسان اپنا پیغام چند ساعتوں میں دنیا کے کسی بھی گوشے میں پہنچا سکتا ہے۔ یہ محض سائنسی ایجادات کے باعث ہی ممکن ہوا ہے۔ بجلی کی ایجاد سے انسانی زندگی مزید سہل اور پر آسائش ہوئی ہے۔ صنعت و حرفت اور روزمرہ زندگی کے کم و بیش تمام معاملات کا دارومدار بجلی ہی پر ہے۔ انسان نے پنکھے، ایئر کنڈیشنر اور ہیٹر وغیرہ ایجاد کر کے اپنی زندگی میں سہولتوں کا اضافہ کیا ہے۔ بجلی کی وجہ سے ہی راتیں دن کی طرح روشن رہتی ہیں۔ ایسی مشینیں اور ادویات بن چکی ہیں جنہوں نے انسانی زندگی کو لاحق خطرات کو کم سے کم کر دیا ہے۔ وبائی امراض اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ سائنسی ایجادات کی بدولت آج انسان کے جسم کے کسی بھی حصے کا بڑی آسانی کے ساتھ آپریشن کے ذریعے علاج کیا جا سکتا ہے۔ ریڈیو تھراپی ، ایکس ریز، الٹرا ساؤنڈ اور دیگر متعدد چیزوں نے کینسر اور ٹی بی جیسے موذی امراض پر قابو پانے میں مدد دی ہے۔ کھیتی باڑی اور زراعت کے میدان میں بھی بیش بہا ترقی ہوئی ہے۔ حیرت انگیز ایجاد کمپیوٹر کے ذریعے ایسے ایسے کام لئے جا رہے ہیں جن کا تصور بھی انسانی تاریخ میں نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سائنسی ایجادات نے انسان کی زندگی کو بہت زیادہ آرام دہ اور پر آسائش بنا دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان نے سائنس کے علم کو منفی طور پر بھی استعمال کیا اور ایسے ایسے ہلاکت خیز ہتھیار اور گولہ بارود بنا لئے کہ خدا کی پناہ ! ایٹم بم ، ہائیڈروجن بم وغیرہ ایسی ہی ہلاکت خیز ایجادات ہیں۔

سبق 16

محنت کی برکات باب نمبر 16
مشق:
1۔ مختصر جواب دیں۔
(الف) دنیا میں ہر کام کے لئے کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے؟
جواب: دنیا میں ہر کام کے لئے حرکت ، طاقت اور قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔
(ب) کام کی انجام دہی کیا کہلاتی ہے؟
جواب: کام کی انجام دہی محنت کہلاتی ہے۔
(ج) کیسا انسان مذہبی اعتبار سے بھی قابل قبول نہیں؟
جواب: مذہبی اعتبار سے ایک کاہل ، سست اور بے عمل انسان معاشرے کے لئے قابل قبول نہیں۔
(د) اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کام کرنے والے کو کیا کہا گیا ہے؟
جواب: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کام کرنے والے کو اللہ کا دوست کہا گیا ہے۔
(ہ) ہمارے پیارے نبی ﷺ اپنے کون کون سے کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے؟
جواب: ہمارے پیارے نبی ﷺ اپنے جوتے خود گانٹھتے اور اپنے پھٹے کپڑوں کو پیوند بھی خود لگایا کرتے تھے۔
(و) ہمارے لئے کن کی زندگی مشعل راہ ہے؟
جواب: تحریک پاکستان میں شامل کئی شخصیات ایسی ہیں جن کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔
(ز) انسانی زندگی میں نکھار کیسے آتا ہے؟
جواب: انسانی زندگی میں نکھار محنت ہی سے آتا ہے۔
2۔ اعراب کی مدد سے درج ذیل کا تلفظ واضح کریں۔
چنگل ۔ ثمرات ۔ مشقت ۔ ذلت ۔ مکہ
جواب: چنگل ۔ ثمرات ۔ مشقت ۔ ذلت ۔ مکہ

3۔ درج ذیل الفاظ و مرکبات کے معنی لغت سے تلاش کر کے لکھیں۔
مشعلِ راہ ۔ پیش نظر۔ ثمرات ۔ عار۔ نہال
جواب: الفاظ معانی
مشعل راہ راستے کی روشنی، راہنما
پیش نظر درپیش، سامنے
ثمرات فوائد
عار عیب ۔ نقص۔ شرم
نہال پودا
4۔ درج ذیل الفاظ کو جملوں میں اس طرح استعمال کریں کہ ان کی تذکیر و تانیث واضح ہو جائے۔
کاہل۔ تبلیغ۔ شہرت۔ مثال۔ کائنات
الفاظ
جملے
کاہل
کاہل اور سست انسان معاشرے کیلئے قابل قبول نہیں ہوتا۔
تبلیغ
برصغیر پاک و ہند میں بزرگان دین نے اسلام کی تبلیغ کی۔
شہرت
دولت، عزت اور شہرت محنت ہی کا ثمر ہے۔
مثال
حضور ﷺہمارے لئے ایک مثال اور نمونہ ہیں۔
کائنات
خالق کائنات نے محنت کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔
سوال نمبر5۔ اس سبق میں سے پانچ اسمِ نکرہ تلاش کر کے لکھیں۔
جواب : انسان ۔ درخت ۔ کسان ۔ قوم ۔ طالب علم
سوال نمبر6۔ ہمیں تحریک پاکستان میں شامل شخصیت کی زندگی سے کیا سبق ملتا ہے؟
جواب: ہمیں تحریک پاکستان میں شامل شخصیت کی زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ حصول مقصد کے لئے ہمیں دن رات محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے قومی رہنما قائد اعظم ؒ نے بھی کام کام اور صرف کام کی ہی نصیحت کی تھی۔ گویا پاکستانی قوم کو انہوں نے کامیابی کا کلیہ بتایا تھا کہ اگر ہمیں دنیا میں مضبوط اور طاقتور قوم بننا ہے تو پھر محنت اور مشقت کو اپنا شعار بنانا ہو گا۔
7۔ بزرگانِ دین نے اپنی زندگی کس طرح بسر کی؟
جواب: بزرگان دین نے اپنی محنت سے بسر کی۔ کئی کئی سال حصول علم میں صرف کئے۔ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے ہزاروں میل کا سفر کر کے ہندوستان آئے اور لوگوں کے دلوں کو اللہ تعالیٰ کے دین کی روشنی سے منور کیا۔ یہ لوگ اگر محنت نہ کرتے، ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے تو آج سارا عالم، اسلام کی تعلیمات سے محروم ہوتا۔
8۔ سبق ’’محنت کی برکات‘‘ کو پیش نظر رکھتے ہوئے درست جواب کی نشاندہی ( ) سے کریں۔
(الف) انسان کو وہی کچھ ملے گا، جس کے لئے وہ :
(i) کوشش کرے گا (ii) ہمت کرے گا
(iii) محنت کرے گا (iv) عمل کرے گا
(ب) اسلام میں محنت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کا کیا کہا گیا ہے؟
(i) دوست (ii) حبیب
(iii) بندہ (iv) مقرب
(ج) ہمارے پیارے نبی ﷺ چھوٹے سے چھوٹا کام خود کرنے میں کیا محسوس کرتے تھے؟
(i) راحت (ii) عزت
(iii) ناز (iv) فخر
(د) ہمارے دیگر قومی رہنما کیا لے کر پیدا نہیں ہوئے تھے؟
(i) ہاتھ میں سونے کی پلیٹ (ii) منھ میں سونے کا چمچ
(iii) منھ میں سونے کا نوالہ (iv) جسم پر سونے کا لباس
(ہ) مضبوط اور طاقتور قوم بننے کے لئے ہمیں محنت اور مشقت کو کیا بنانا ہو گا؟
(i) معیار (ii) شعار
(iii) مشغلہ (iv) اصول
(و) کامیابی، محنتی طالب علم کے :
(i) قدم بڑھاتی ہے (ii) قدم اٹھاتی ہے
(iii) قدم چھوتی ہے (iv) قدم چومتی ہے
جواب: (الف) iii (ب) i (ج) iv (د) ii (ہ) ii (و) iv
9۔ درج ذیل الفاظ کی جمع لکھیں۔
واحد جمع
عیب عیوب
مثال مثالیں
ثمر اثمار
آسائش آسائشیں، آسائشات
فرد افراد
10۔ درج ذیل الفاظ کے متضاد لکھیں۔
الفاظ متضاد
حرکت سکون
طاقت کمزوری
پائیداری ناپائیداری
خالق مخلوق
شہرت گمنامی
11۔ سبق ’’محنت کی برکات‘‘ کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیں۔
جواب: دنیا میں ہر کام کے لئے حرکت، طاقت اور قوت کی ضرورت ہوتی ہے اور کام کی انجام دہی محنت کہلاتی ہے۔ دنیا کی تمام تر خوب صورتی پائیداری محنت اور مشقت ہی کی بدولت ہے۔ محنت اس کائنات کا ایک ایسا اصول ہے جس پر عمل کی بنیاد پر انسان کو زندگی کے ہر شعبے میں ثمرات میسر آتے ہیں۔ خود خالق کائنات نے بھی بڑے واضح الفاظ میں فرمایادیا ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کے لئے وہ محنت کرے گا۔ گویا مذہبی اعتبار سے بھی ایک کاہل سست اور بے عمل انسان معاشرے کے لئے قابل قبول نہیں ۔ اسلام میں کام کرنے والے کو اللہ کا دوست کہا گیا ہے۔ خود ہمارے نبی ﷺ اپنا ہر کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں فخر محسوس کرتے، اپنے جوتے خود گانٹھتے اور پھٹے کپڑوں کو پیوند بھی خود لگایا کرتے تھے۔ مسجد نبوی کی تعمیر میں حضور ﷺ نے صحابہ کرامؓ کے ساتھ مل کر پتھر اٹھائے اور غزوہ خندق کے موقع پر خود بھی خندقیں کھودنے کا کام سرانجام دیا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے ہمارے لئے ایک مثال اور نمونہ دیا کہ کوئی بھی کام خود کرنے میں عار محسوس نہیں کرنی چاہیے۔
پاکستانی ہونے کی حیثیت سے اگر ہم غور کریں تو یہ بات واضح ہو گی کہ تحریک پاکستان میں شامل کئی شخصیات ایسی ہیں جن کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ سر سید احمد خانؒ ، قائد اعظم ؒ اور علامہ اقبال ؒ سمیت دیگر قومی رہنما منھہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے حصول تعلیم اور پھر حصول مقصد کے لئے دن رات محنت کی۔ اسی محنت کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنا اور اپنے والدین کا نام روشن کیا بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کے خواب کو عملی صورت بھی دی۔ اگر یہ لوگ دن رات محنت نہ کرتے تو آج ہم سکھ اور آزادی کا جو سانس لے رہیہیں وہ کبھی ممکن نہ ہوتا۔ ہم انگریزوں کی غلامی کے بعد ہندوؤں کی غلامی کے چنگل میں ہمیشہ کے لئے پھنس گئے ہوتے۔
برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام کرنے والے بزرگان دین کئی کئی سال حصول علم میں صرف کئے۔ ہزاروں میل سفر کر کے ہندوستان آئے اور لوگوں کے دلوں کو اللہ تعالیٰ کے دین کی روشنی سے منور کیا ان کے پیش نظر حضور ﷺ کی ذات گرامی تھی جنہوں نے مشرکین مکہ کے ہر ظلم کو برداشت کیا اور طائف میں پتھر کھا کر لہولہان بھی ہوئے یہ لوگ اگر محنت کرتے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے تو آج سارا عالم ، اسلام کی تعلیمات سے محروم ہوتا۔ انسان کی حیثیت ایک پودے کی سی نہیں کہ ایک ہی جگہ پر کھڑے کھڑے تناور درخت بن جائے گا۔ انسانی زندگی میں نکھار، معیار اور وقار محنت ہی سے آتا ہے اور کوئی شخص ایسا نہیں جو بغیر محنت و مشقت کے کامیابی و کامرانی کا دعویٰ کرے۔ دنیا میں جس نے بھی شہرت، عزت اور نام کمایا وہ محنت ہی کا ثمرتھا۔ جس انسان نے محنت کو اپنا شعار بنایا اسی نے مقام و مرتبہ اور عظمت پائی۔
کسان کی مثال لے لیں اگر وہ محنت کرنا چھوڑ دے کھیتی باڑی نہ کرے تو خوراک کا بندوبست کیوں کر ممکن ہو گا؟ آج کا انسان اپنی زندگی میں جن آسائشات اور سہولتوں کے مزے لوٹ رہا ہے وہ سائنسی ایجادات کی بدولت ہیں اور سائنسی ایجادات انسان کی محنت کا ثمر ہیں۔ جن افراد اور اقوام نے محنت کی وہ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہو گئیں۔ جنہوں نے محنت اور مشقت سے پہلو تہی کی انہیں معاشرے اور دنیا میں کچھ بھی حاصل نہ ہو سکا۔
ایک طالب علم اگر سارا سال کچھ نہ پڑھے۔ وقت ضائع کرے اور پڑھائی کے لئے محنت نہ کرے تو سال کے آخر میں ناکامی کے سوا اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے اس کے مقابلے میں جو طالب علم سارا سال محنت کرتا رہتا ہے۔ کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔
دنیا میں کامیابی و کامرانی ، عزت و نام اور شہرت کے لئے ہمیں سخت محنت اور مشقت کرنی چاہیے۔ ہمارے قومی رہنما قائد اعظم ؒ نے بھی کام، کام اور صرف کام کی ہی نصیحت کی تھی۔ گویا پاکستانی قوم کو انہوں نے کامیابی کا کلیہ بتایا تھا کہ اگر ہمیں دنیا میں مضبوط اور طاقتور قوم بننا ہے تو پھر محنت اور مشقت کو اپنا شعار بنانا ہو گا۔ محنت ہی کی وجہ سے انسان میں ہمت، حوصلہ اور اعتماد کی قوت پیدا ہوتی ہے جو آگے چل کر کامیابی و کامرانی کا پیش خیمہ بنتی ہے۔
12۔ محنت کے بارے میں مولانا حالی کے اشعار اپنی کاپی میں خوشخط لکھیں اور ان کا مفہوم بھی تحریر کریں۔
جواب: محنت کے بارے میں مولانا حالی کے اشعار
مشقت کی ذلت جنہوں نے اٹھائی
جہاں میں ملی ان کو آخر بڑائی
کسی نے بغیر اس کے ہرگز نہ پائی
فضیلت نہ عزت نہ فرماں روائی
نہال اس گلستاں میں جتنے بڑھے ہیں
ہمیشہ وہ نیچے سے اوپر چڑھے ہیں
مفہوم: مولانا الطاف حسین حالی نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے سخت محنت اور مشقت کو اپنا شعار بنایا ہے انہی لوگوں نے دنیا میں مقام و مرتبہ اور عظمت پائی ہے۔ محنت کے بغیر کسی شخص کو بھی عزت، عظمت اور حکمرانی نصیب نہیں ہوئی۔ جس طرح پودے ہمیشہ نیچے سے اوپر کو چڑھتے ہیں اسی طرح دنیا میں جتنے لوگوں نے مقام اور مرتبہ پایا ہے وہ محنت کے باعث ہے۔
۱۳۔ کالم (الف) میں دئیے گئے الفاظ کو کالم (ب) کے متعلقہ الفاظ سے ملائیں۔
کالم ( الف) کالم (ب)
ثمرات سست
کاہل نتیجہ
مثال چنگل
غلامی نمونہ
جواب:
ثمرات نتیجہ
کاہل سست
مثال نمونہ
غلامی چنگل

سبق 17

خراب ہے باب نمبر 17
مشق:
1۔ مختصر جواب دیں۔
(الف) آوے کا آوا خراب ہونے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب: آوے کا آوا خراب ہونے سے شاعر کی مراد یہ ہے کہ پورا معاشرہ ہی خراب ہے۔ معاشرے میں کوئی ایک دو خرابیاں نہیں بلکہ پورا معاشرہ ہی بگڑ چکا ہے۔
(ب) ڈاکٹر کے علاج کرنے کا کیا نتیجہ نکلا؟
جواب: ڈاکٹر کے علاج کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ حال پہلے سے زیادہ خراب ہو گیا۔
(ج) ہماری خوراک کیسی ہے اور اس کا کیا نقصان ہو رہا ہے؟
جواب: ہماری خوراک ناخالص اور ناقص ہے۔
2۔ درج ذیل الفاظ کے مترادف لغت سے تلاش کر کے لکھیں۔
اہلیہ ۔ خو ۔ زمانہ ۔ سودا۔ خراب
جواب: الفاظ مترادف
اہلیہ بیوی
خو عادت
زمانہ دور ، وقت
سودا مال ، اسباب
خراب تباہ ، نکما

3۔ درج ذیل الفاظ کے متضاد لکھیں۔
پتلا ۔ گاؤں۔ شوہر ۔ خراب
جواب: الفاظ متضاد
پتلا موٹا
گاؤں شہر
شوہر بیوی
خراب اچھا
4۔ درست جواب کی نشاندہی ( ) سے کریں۔
(الف) دودھ اس لئے پتلا ہے کہ :
(i) موسم خراب ہے (ii) چارا خراب ہے
(iii) گوالا خراب ہے (iv) بھینس خراب ہے
(ب) بیوی شوہر سے کہتی ہے کہ :
(i) گوشت خراب ہے (ii) آٹا خراب ہے
(iii) دودھ خراب ہے (iv) سوداخراب ہے
(ج) ہر شخص کے نزدیک کون خراب ہے؟
(i) حکومت (ii) گوالا
(iii) زمانہ (iv) ماحول
(د) شاعر کا حال زیادہ خراب کیوں ہے؟
(i) ڈاکٹر کے علاج کی وجہ سے (ii) حکیم کے علاج کی وجہ سے
(iii) بیوی کے سلوک کی وجہ سے (iv) پتلے دودھ کی وجہ سے
(ہ) حال ہی میں گاؤں میں کیا بنایا گیا ہے؟
(i) سکول (ii) مدرسہ
(iii) ہسپتال (iv) رستہ
جواب: (الف) ii (ب) iv (ج) iii (د) i (ہ) iv
5۔ درج ذیل شعر میں کس معاشرتی برائی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؟
کہتے ہیں جب گوالے سے: ’’پتلا ہے دودھ کیوں‘‘
کہتا ہے ہم سے : بھینس کا چارا خراب ہے
جواب: اس شعر میں دودھ میں پانی ملانے کی معاشرتی برائی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ گوالے دودھ میں پانی خود ملاتے ہیں لیکن جب ان سے دودھ کے پتلا ہونے کی شکایت کی جاتی ہے تو وہ طرح طرح کے بہانے بناتے ہیں جن میں سے ایک بہانہ یہ بھی ہے کہ بھینس کا چارہ خراب ہونے کی وجہ سے دودھ پتلا ہے۔
6۔ ہمارے ملک کے بددیانت ٹھیکیدار، انجینئر اور مستری وغیرہ عموماً عمارتیں اور سڑکیں تعمیر کرتے وقت اچھا میٹیریل استعمال نہیں کرے۔ شاعر نے اس نظم کے کس شعر میں، کس طرح اس المیے کی نشاندہی کی ہے؟
جواب: شاعر نے اس نظم کے چھٹے شعر میں اس المیے کی نشاندہی کی ہے کہ اگرچہ ہمارے گاؤں کا راستہ حال ہی میں بنایا گیا ہے لیکن وہ خراب بھی ہو گیا ہے کیونکہ وہ ٹھیکیدار، انجینئر اور مستری وغیرہ نے بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہے اور راستہ بنانے کے لئے گھٹیا میٹیریل استعمال کیا ہے۔
7۔ درج ذیل الفاظ کو جملوں میں اس طرح استعمال کریں کہ ان کی تذکیر و تانیث واضح ہو جائے۔
حال۔ غذا۔ سودا۔ اہلیہ۔ معدہ
جواب: الفاظ جملے
حال اس کا حال پہلے سے زیادہ کراب ہے۔
غذا اچھی غذا کھانے سے صحت اچھی رہتی ہے۔
سودا سارا سودا ضائع ہو گیا تھا۔
اہلیہ نیاز کی اہلیہ ناراض تھی۔
معدہ ڈاکٹر نے مریض کو معدہ خراب ہونے کا بتایا۔
8۔ مناسب الفاظ لگا کر مصرعے مکمل کریں۔
الف۔ ہر اہلیہ کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے کہ شوہر سے یہ کہے
ب۔ پہلے سے میرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زیادہ خراب ہے
ج۔ اب تو نیاز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خراب ہے۔
ہ۔ ایسا کوئی نہیں جو کہے ، میں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خراب۔
جواب: (الف) خو (ب) حال (ج) آوے کا آوا (د) غذا (ہ) خود
9۔ کالم (الف) میں دئیے گئے الفاظ کو کالم (ب) کے متعلقہ الفاظ سے ملائیں۔
کالم (الف) کالم (ب)
اہلیہ دودھ
غذا شہر
گوالا شوہر
علاج معدہ
گاؤں ڈاکٹر

جواب: اہلیہ شوہر
غذا معدہ
گوالا دودھ
علاج ڈاکٹر
گاؤں شہر
10۔ اس نظم کا کون سا شعر آپ کو سب سے زیادہ پسند آیا ہے؟ وجہ تحریر کریں۔
جواب: اس نظم کا ساتواں شعر مجھے سب سے زیادہ پسند آیا ہے کیوں کہ اس شعر میں بہت اہم بات بیان کی گئی ہے کہ ہر شخص زمانہ خراب ہونے کا شکوہ کرتا ہے لیکن اپنی خرابی اور خامی کا ذکر نہیں کرتا۔ حالانکہ زمانہ لوگوں سے ہے اگر ہر شخص اپنی خرابی دور کر لے تو زمانہ ٹھیک ہو جائے اور کوئی شخص زمانے سے شاکی نہ رہے۔
11۔ نظم ’’خراب ہے‘‘ کا خلاصہ تحریر کریں۔
جواب: شاعر اس نظم میں مزاحیہ انداز میں معاشرے پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تمہاری حالت اس سے تباہ اور خراب ہے کہ جو تم خوراک اور کھانا کھاتے ہو۔ وہ بہت ہی خراب اور ناقص ہوتا ہے۔ ہر بیوی کی یہ عادت بن چکی ہے کہ وہ اپنے شوہر سے ہر وقت کہتی رہتی ہے کہ جو سامان تم بازار سے لائے ہو وہ بہت ہی ناقص اور بے کار ہے اور جب دودھ بیچنے والے کو گوالے سے ہم کہتے ہیں کہ ’’تمہارا دودھ کیوں پتلا ہے‘‘ تو وہ فوراً جواب دیتا ہے کہ میں کیا کروں بھینس کے لئے چارا اور بھوسہ ہی خراب ملتا ہے۔
وہ سب کچھ ہضم کرنے کے بعد میرا حصہ بھی کھا گیا اور پھر بھی اسے یہ کہتے ہوئے سنا کہ ابھی میرا معدہ ٹھیک نہیں ہے۔
جب سے ڈاکٹر نے میرا علاج شروع کیا تو میری حالت پہلے سے بھی زیادہ خراب ہونے لگی ہے اور اگرچہ تھوڑے ہی دن پہلے ہمارے گاؤں کی سڑک بنائی گئی تھی لیکن ہمارے گاؤں کا راستہ پھر بھی خراب ہے۔ کوئی شخص اپنی برائی اور خرابی پر دھیان نہیں دیتا بلکہ ہر ایک شخص زمانے کو برا کہہہ رہا ہے اور آخر میں شاعر کہتا ہے کہ مشین کے ایک دو پرزے ہی خراب نہیں ہوئے بلکہ مشین مکمل طور پر خراب ہو چکی ہے یعنی معاشرے میں ایک دو خرابیاں ہی نہیں بلکہ پورا معاشرہ کرپٹ اور تباہ حال ہو چکا ہے۔
12۔ اس نظم سے کوئی سے پانچ اسم نکرہ تلاش کر کے لکھیں۔
جواب: اہلیہ ۔ شوہر۔ سودا ۔ ڈاکٹر۔ گاؤں

سبق 18

کھیل باب نمبر 18
مشق:
1۔ مختصر جواب دیں۔
(الف) کھیل کے ذریعے انسان میں کون سی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں؟
جواب: کھیل کے ذریعے سے انسان میں نظم و ضبط کی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں۔
(ب) کوئی سے پانچ دیہاتی کھیلوں کے نام لکھیں۔
جواب: i۔ آنکھ مچولی ii۔ گلی ڈنڈا iii۔ ککلی iv۔کبڈی v۔ فٹ بال
(ج) بین الاقوامی (انٹرنیشنل) سطح پر کھیلے جانے والے کوئی سے پانچ کھیلوں کے نام لکھیں۔
جواب: i۔ کرکٹ ii۔ ہاکی iii۔ فٹ بال iv۔ ٹینس v۔ بیڈمنٹن
(د) انسانی جسم کے لئے کھیل کیوں ضروری ہیں؟
جواب: انسانی جسم کی نشوونما میں کھیل کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ کھیل کود کی بدولت انسانی وجود، مضبوط اور چاق و چوبند رہتا ہے۔
(ہ) ککلی کھیلتے وقت بچیاں کیا بول الاپتی ہیں؟
جواب: ککلی کھیلتے وقت بچیاں یہ بول الاپتی ہیں۔
ککلی کلیر دی
پگ میرے ویر دی
2۔ درج ذیل الفاظ کے معنی لکھیں اور جملوں میں استعمال کریں۔
رسیلے ۔ لازوال ۔ مقدس ۔ مقبول ۔ مزین
الفاظ معانی جملے
رسیلے رس بھرے ککلی کھیلتے وقت بچیاں رسیلے بول الاپتی ہیں۔
لازوال جس کو زوال نہ ہو ککلی کے شیریں بولوں سے بھائی بہن کی لازوال محبت ظاہر ہوتی ہے۔
مقدس پاک بہن بھائی کا رشتہ ایک لازوال اور مقدس رشتہ ہے۔
مقبول قبول کیاگیا، پسندیدہ گلی ڈنڈا دیہاتی لڑکوں کا مقبول کھیل ہے۔
مزین آراستہ علاقائی کھیل تہذیبی اور ثقافتی زندگی کے مختلف رنگوں سے مزین ہیں۔
3۔ اعراب لگا کر تلفظ واضح کریں۔
حیثیت، منسلک، ثقافت، صبر ، تحمل
حیثیت، منسلک، ثقافت، صبر ، تحمل
4۔ درست جواب کی نشاندہی ( ) سے کریں۔
(الف) پاکستان کا قومی کھیل ہے:
(i) کرکٹ (ii) فٹ بال
(iii) کبڈی (iv) ہاکی
(ب) گلی ڈنڈا ، کن کا مرغوب کھیل ہے؟
(i) شہری لڑکوں کا (ii) شہر لڑکیوں کا
(iii) دیہاتی لڑکوں کا (iv) دیہاتی لڑکیوں کا
(ج) کھیل کس کا اظہار کرتے ہیں؟
(i) عادت کا (ii) ثقافت کا
(iii) فارغ وقت کا (iv) امارت کا
(د) کھیل ’’آنکھ مچولی‘‘ مقبول ہے۔
(i) شہری لڑکوں میں (ii) شہری لڑکوں اور لڑکیوں میں
(iii) دیہاتی لڑکیوں میں (iv) دیہاتی لڑکوں اور لڑکیوں میں
(ہ) کس وقت ’’آنکھ مچولی‘‘ کا کھیل کھیلا جاتا ہے؟
(i) کسی بھی وقت (ii) شام کے وقت
(iii) دن کے وقت (iv) رات کے وقت
جواب: (الف) iv (ب) iii (ج) ii (د) iv (ہ) i

5۔ مذکر اور مونث الگ الگ کریں۔
کھیل ۔ صحت ۔ حوصلہ ۔ طبیعت ۔ وقت ۔ رات
جواب: مذکر: کھیل ۔ حوصلہ ۔ وقت
مونث: صحت ۔ طبیعت ۔ رات
6۔ واحد کے جمع اور جمع کے واحد لکھیں۔
جذبہ ۔ خطے ۔ صلاحیت۔ عمل۔ معمول۔ بچے
جواب: واحد جمع
جذبہ جذبات
خطہ خطے
صلاحیت صلاحیتیں
عمل اعمال
معمول معمولات
بچہ بچے
7۔ درست اور غلط بیانات کی نشاندہی کریں۔
(الف) کھیل انسانی زندگی میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ درست/ غلط
(ب) پاکستان کا قومی کھیل کرکٹ ہے۔ درست/ غلط
(ج) ٹینس، بیڈمنٹن اور ہاکی دیہاتی بچوں میں مقبول ہیں۔ درست/ غلط
(د) ’’گلی ڈنڈا‘‘ کے کھیل کو کم سے کم دو لڑکے کھیل سکتے ہیں۔ درست/ غلط
(ہ) ’’ککلی‘‘ کا کھیل صرف بچیاں کھیلتی ہیں۔ درست/ غلط
جواب: (الف) درست (ب) غلط (ج) غلط (د) درست (ہ) درست

8۔ درج ذیل الفاظ کے متضاد لکھیں۔
شیریں ۔ معروف ۔ شہر ۔ قومی ۔ محبت
الفاظ متضاد
شیریں تلخ
معروف غیر معروف
شہر گاؤں
قومی غیر قومی
محبت نفرت
9۔ ’’آنکھ مچولی‘‘ کا کھیل کس طرح کھیلا جاتا ہے؟
جواب: آنکھ مچولی کا کھیل اس طرح کھیلا جاتا ہے۔
کھیل کا آغاز ٹاس سے ہوتا ہے۔ ٹاس ہارنے والا بچہ اپنی آنکھیں بند کر کے کھڑا ہو جاتا ہے اور باقی بچے ادھر ادھر چھپ جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ٹاس ہارنے والا بچہ اپنی آنکھیں کھول کر چھپنے والے ساتھی بچوں کو تلاش کرتا ہے۔ وہ بچہ سب سے پہلے جس ساتھی کو تلاش کر کے چھو لے، وہ ہار جاتا ہے اور اسے باری دینی پڑتی ہے۔ یوں یہ کھیل جاری رہتا ہے تمام بچے کسی نہ کسی طرح اس کھیل میں شامل رہتے ہیں۔
10۔ آپ کو کون سا کھیل پسند ہے؟ پسندیدگی کی وجہ بھی لکھیں۔
جواب: میرا پسندیدہ کھیل ہاکی ہے اور اس کھیل کو پسند کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے۔
11۔ کھیلوں کی اہمیت اور فوائد پر ایک پیرا گراف لکھیں۔
جواب: کھیلوں کی اہمیت اور فوائد
دنیا کے تمام خطوں میں کھیل کو انسانی زندگی میں بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ کھیل انسانی زندگی میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ جسمانی صحت کا دارومدار جسمانی کام کاج، ورزش اور کھیل کود پر ہے۔ انسانی جسم کی نشوونما میں کھیل کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔ کھیل کود کی بدولت انسانی وجود مضبوط اور چاق و چوبند رہت اہے۔ کھیل کے ذریعے سے انسان میں نظم و ضبط کی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کھیل نہ صرف صبر و تحمل سکھاتے ہیں بلکہ اس سے حوصلہ مندی اور برداشت کے ساتھ مقابلہ کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ یہ انسان کو مل جل کر زندگی بسر کرنے کا درس بھی دیتے ہیں۔ کھیلوں کے توسط سے پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ کھیل جہاں ایک طرف جسمانی صحت اور تندرستی کے ضامن ہیں۔ وہیں یہ اپنے علاقے کی ثقافت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
12۔ کالم (الف) میں دئیے گئے الفاظ کو کالم (ب) کے متعلقہ الفاظ سے ملائیں۔
کالم (الف) کالم (ب)
چاق چوبند ہاکی
قومی کھیل ٹینس
شہری کھیل چست
بچوں کا کھیل برداشت
بچیوں کا کھیل ککلی
صبر و تحمل گلی ڈنڈا
جواب:
چاق چوبند چست
قومی کھیل ہاکی
شہری کھیل ٹینس
بچوں کا کھیل گلی ڈنڈا
بچیوں کا کھیل ککلی
صبر و تحمل برداشت

سبق 19

اسلامی ممالک کی تنظیم(OIC) باب نمبر 19
مشق:
1۔ مختصر جواب دیں۔
(الف) اسلامی ممالک کے اتحاد کی اشد ضرورت کب محسوس کی گئی ؟
جواب: بیسویں صدی کے آغاز اور پہلی جنگ عظیم کے بعد اسلامی ممالک کے اتحاد کی اشد ضرورت محسوس کی گئی۔
(ب) اسلامی کانفرنس کے قیام کی تجویز کس نے پیش کی؟
جواب: اسلامی کانفرنس کے قیام کی تجویز سعودی حکمران شاہ عبدالعزیز نے پیش کی تھی۔
(ج) اسلامی کانفرنس کا پہلا اجلاس کب اور کہاں بلوایا گیا؟
جواب: اسلامی کانفرنس کا پہلا اجلاس ۱۹۲۶ء میں مکہ مکرمہ میں بلایا گیا۔
(د) اسلامی کانفرنس از سر نو کب قائم کی گئی؟
جواب: اسلامی کانفرنس کو ۱۹۶۵ میں از سر نو قائم کیا گیا۔
(ہ) یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کی شرمناک حرکت کب کی؟
جواب: اگست ۱۹۶۹ء میں یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کی شرمناک حرکت کی۔
(و) مراکش میں ہونے والی پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کی صدارت کس نے کی؟
جواب: مراکش میں ہونے والی پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کی صدارت مراکش کے شاہ حسین نے کی۔
(ز) لاہور میں ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کی صدارت کس نے کی؟
جواب: لاہور میں ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کی صدارت وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے کی۔
2۔ علامہ اقبال کے اس شعر کی تشریح خوش خط اپنی کاپی میں لکھیں۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
جواب: علامہ اقبال ؒ نے اپنے اس شعر میں مسلمان قوم کو اتحاد اور اتفاق کی تعلیم دی ہے۔ ایک اللہ، ایک رسول ﷺ اور ایک کتاب کے ماننے والوں کو ایک قوم بننے کی تاکید کی گئی ہے۔ آپ نے دریائے نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر کی سرزمین تک کے سب مسلمانوں کو حرم یعنی خاہ کعبہ کی نگہبانی کے لئے متحد ہونے کا کہا ہے یعنی مسلمانوں کو اتحاد اور بھائی چارے کی تلقین کی ہے۔
3۔ اعراب کی مدد سے درج ذیل کا تلفظ واضح کریں۔
تنظیم ، بیت المقدس ، متحرک، فعال، جارحیت
جواب: تنظیم ۔ بیت المقدس۔ متحرک۔ فعال۔ جارحیت
4۔ درج ذیل الفاظ کے معنی لغت سے تلاش کر کے لکھیں۔
یک جہتی، سانحہ، جارحیت، تنازعہ ، فقدان
جواب: الفاظ معانی
یک جہتی اتحاد
سانحہ صدمہ پہنچانے والا واقعہ
جارحیت ناجائز حملہ
تنازع جھگڑا، فساد
فقدان کمی
5۔ سبق ’’اسلامی ممالک کی تنظیم‘‘ کے متن کو پیش نظر رکھتے ہوئے درست جواب کی نشاندہی ( ) سے کریں۔
(الف) لاہور میں ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس میں کتنے ممالک نے شرکت کی؟
i۔ چوبیس ii۔ چالیس
iii۔ ستاون iv۔ پچپن
(ب) زیر زمین تیل کا کتنے فیصد حصہ مسلم ممالک کی ملکیت ہے؟
(i) اسی فیصد (ii) پچھتر فیصد
(iii) ستاون فیصد (iv) چھیاسٹھ فیصد

(ج) پہلی جنگ عظیم کے بعد اسلامی ممالک کے اتحاد کی محسوس کی گئی:
(i) شدید ضرورت (ii) شدت سے ضرورت
(iii) زیادہ ضرورت (iv) اشد ضرورت
(د) دنیا کے کتنے اسلامی ممالک اس تنظیم کا حصہ ہیں؟
(i) چالیس (ii) چوبیس
(iii) نصف (iv) تمام
(ہ) اسلامی ممالک کی تنظیم کا مرکزی دفتر سعودی عرب کے کس شہر میں ہے؟
(i) مکہ مکرمہ (ii) مدینہ منورہ
(iii) جدہ (iv) ریاض
(و) مسلمان قوم دنیا کی واحد قوم ہے جو بندھی ہوئی ہے:
(i) ایک نظریے سے (ii) ایک خلافت سے
(iii) ایک دین سے (iv) ایک کلمے سے
جواب: (الف) ii (ب) ii (ج) iv (د) iv (ہ) iii (و) iv
6۔ اسلامی ممالک کی تنظیم کا جھنڈا کیسا ہے اور کن رنگوں پر مشتمل ہے؟
جواب: اسلامی ممالک کی تنظیم کا جھنڈا سبز رنگ کا ہے جس کے وسط میں سفید دائرہ ہے۔ اس سفید دائرے میں سرخ ہلال ہے اور اس کے اوپر ’’اللہ اکبر‘‘ لکھا گیا ہے۔
7۔ اس سبق سے کوئی سے چار اسم نکرہ تلاش کر کے لکھیں۔
جواب: i۔ قوم ii۔ تنظیم iii۔ رکن iv۔ دفتر v۔ جھنڈا
8۔ درج ذیل الفاظ کی جمع لکھیں۔
تنازع ۔ سانحہ ۔ تجویز ۔ وجہ ۔ ذخیرہ
جواب: الفاظ جمع
تنازع تنازعات
سانحہ سانحے
تجویز تجاویز
وجہ وجوہات
ذخیرہ ذخائر
9۔ کالم (الف) میں دئیے گئے الفاظ کو کالم (ب) کے متعلقہ الفاظ سے ملائیں۔
کالم (الف) کالم (ب)
ایک خدا کعبہ
حرم ساحل
نیل ایک رسول ﷺ
متحرک تنازعات
اختلافات معدنیات
ذخائر فعال
جواب:
ایک خدا ایک رسول ﷺ
حرم کعبہ
نیل ساحل
متحرک فعال
اختلافات تنازعات
ذخائر معدنیات
10۔ سبق ’’اسلامی ممالک کی تنظیم‘‘ کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیں۔
جواب۔
مسلمان قوم دنیاکی واحد قوم ہے جو ایک کلمے سے بندھی ہوئی ہے ایک خدا ایک رسول ﷺ اور ایک کتاب کے ماننے والوں کو ہمیشہ ایک ہی قوم بننے کی تاکید کی گئی ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
بیسیویں صدی کے آغاز اور پہلی جنگ عظیم کے بعد اسلامی ممالک کے اتحاد کی اشد ضرورت محسوس کی گئی۔ اس مقصد کے لئے اسلامی کانفرنس کی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس تنظیم کے قیام کی تجویز سعودی حکمران شاہ عبدالعزیز نے پیش کی تھی۔ اس کا پہلا اجلاس ۱۹۲۶ء میں مکہ مکرمہ میں بلایا گیا۔ دوسرا اجلاس ۱۹۳۱ء میں ہوا اور بیت المقدس کو اسلامی تنظیم کا صدر دفتر بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
بعض وجوہات کی بنا پر یہ تنظیم زیادہ عرصے تک متحرک اور فعال نہ رہ سکی تاہم ۱۹۶۵ء میں حج کے مبارک موقع پر ۱۳۵ اسلامی ممالک کی ۱۶۵ مقتدر شخصیات نے اس تنظیم یعنی اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC) کو از سر نو قائم کیا اور یہ طے ہوا ہے کہ اس تنظیم میں اسلامی ممالک کے سربراہوں کو بھی شامل کیا جائے تا کہ عالم اسلام کے باہمی اختلافات کے حل اور علاقائی تنازعات کا جائزہ لیا جا سکے۔ اسی دور میں مصر، شام ، اردن جیسے اسلامی ممالک اسرائیل کی اور پاکستان اپنے ہمسایہ ملک بھارت کی جارحیت کا نشانہ بن چکے تھے۔ عراق اور ایران کے تنازعے کے ساتھ ساتھ قبرص کا مسئلہ بھی درپیش تھا۔ چنانچہ مکہ مکرمہ میں ہونے والا یہ اجلاس پوری مسلم امہ کے لئے نیک فال ثابت ہوا۔ اسی دوران میں ایک غیر معمولی سانحہ پیش آ گیا۔ اگست ۱۹۶۹ء میں یہودیوں نے مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کی شرمناک حرکت کی۔ اس المناک سانحے نے پورے عالم اسلام کو غم و غصے کی کیفیت میں مبتلا کر دیا۔ چنانچہ مسلمانوں میں یہ احساس شدت اختیار کر گیا کہ دنیا کے تمام مسلم ممالک کا ایک پلیٹ فارم پر متحد اور یکجا ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
۱۹۶۹ء میں مراکش کے شہر رباط میں مراکش کے شاہ حسین کی صدارت میں اسلامی ممالک کی تنظیم کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں چوبیس (۲۴) اسلامی ممالک کے سربراہان شریک ہوئے تھے اس لئے کانفرنس کو پہلی اسلامی کانفرنس کہتے ہیں۔
اس تنظیم کا دوسرا اجلاس ۱۹۷۴ء میں وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی صدارت میں لاہور (پاکستان) میں منعقد ہوا۔ پنجاب اسمبلی لاہور میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں چالیس اسلامی ممالک نے شرکت کی۔
اسلامی ممالک کی تنظیم کا مرکزی دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہے۔ اس تنظیم کا جھنڈا سبز رنگ کا ہے جس کے وسط میں سفید دائرہ ہے، اس سفید دائرے میں سرخ ہلال ہے اور اس کے اوپر ’’اللہ اکبر‘‘ لکھا گیا ہے۔
اس تنظیم کے تمام اجلاسوں میں عالم اسلام کو درپیش مسائل اور آپس کے تنازعات کے معاملے میں باہمی اتحاد اور یک جہتی پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مسلم اقتصادی برادری کی بنیاد ڈالنے، سائنسی تحقیق، تعلیم کے فروغ اور جدید ٹیکنالوجی کی ترقی کے لئے اشتراک عمل پیدا کرنے کی ضرورت بھی محسوس کی گئی ۔
مسلم ممالک ایشیاء ، افریقہ اور یورپ کے براعظموں میں موجود ہیں۔ دنیا کے اہم ترین بری ، آبی اور ہوائی راستوں کے علاوہ دنیا کی خوب صورت وادیاں، نہایت اہمیت کے حامل بڑے بڑے پہاڑی سلسلے اور معدنی ذخائر ان اسلامی ممالک میں موجود ہیں۔ پوری دنیا میں پائے جانے والے زیر زمین تیل کا 75 فیصد حصہ مسلم ممالک کی ملکیت میں ہے۔ اس تنظیم کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی اور فقدان ہے تو مکمل یک جہتی اور اتحاد کا ہے۔ اگر اس تنظیم کے پلیٹ فارم پر تمام مسلم ممالک جمع ہو جائیں اور باہمی اختلافات اور رنجشوں کو ختم کر ڈالیں تو کوئی شک نہیں کہ اسلامی ممالک دنیا کے طاقتور ترین بلاک کی صورت میں سامنے آئیں گے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم اس مقصد کے حصول کے لئے کوشاں ہے کہ مسلمان ممالک کے مابین معاشرتی، تجارتی، معاشی اور اقتصادی رشتوں کو مضبوط بنا کر افہام و تفہیم کی فضاء اور ماحول پیدا کیا جائے۔ مسلمان نوجوانوں کو باعمل مسلمان بنانا، مسلم امت کو متحد کرنا، کمزور اور مظلوم مسلمانوں کی حمایت کرنا اور مسلمانوں میں معاشرتی اور معاشی توازن پیدا کرنا اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC) کے اہم ترین مقاصد ہیں۔
11۔ ’’مسلم اتحاد‘‘ کے عناون پر ایک مضمون تحریر کریں۔
مسلم اتحاد
اتحاد کے معنی ہیں ’اتفاق ، ایکا‘۔ اصل میں اتحاد اور اتفاق ہم معنی الفاظ ہیں۔ اتفاق یا اتحاد قوت و طاقت کا ذریعہ ہے اور نااتفاقی، انتشار ، کمزوری اور زوال کا پیش خیمہ ہے قوموں کی تعمیر و ترقی ، خوشحالی اور استحکام کا دارومدار اتحاد پر ہے۔ قوم متحد ہو تو اسے کوئی دشمن مغلوب نہیں کر سکتا۔ اگر قوم میں اتحاد و یکجہتی نہ ہو تو دشمن آسانی کے ساتھ اسے زیر کر سکتا ہے۔
قرآن مجید نے مسلمانوں کے اتحاد و یک جہتی پر بہت زور دیا ہے ۔ ارشاد ہے:
واعتصموا بحبل اللہ جمعیاً ولا تفرقوا
اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (دین) کو مضبوط سے تھامے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو۔
پھر ارشاد ہوتا ہے:
لا تنازعو فتفشلوا و تذھب ریمکم
باہمی جھگڑوں سے بچو ورنہ تم بزدل اور پست ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی یعنی تمہارا رعب و دبدبہ جاتا رہے گا۔ اس وقت اتحاد عالم اسلام ایک اہم ترین ضرورت ہے۔ دنیا میں اس وقت مسلمانوں کی تعداد ایک ارب سے زائد ہے اور وہ تقریباً پچاس آزاد مملکتوں کے مالک ہیں۔ ان کے پاس بے پناہ انفرادی و معدنی وسائل ہیں۔ پس جذبہ ایمان اور اتحاد یک جہتی کی اشد ضرورت ہے۔
اس وقت دنیا مختلف بلاکوں میں تقسیم ہے۔ امریکہ سپر پاور بن کر تمام دنیا کے ممالک میں اپنی مرضی کی حکومتیں بنانے اور بگاڑنے میں مصروف نظر آتا ہے۔ مسلمان ممالک انتشار اور افتراق کا شکار ہو کر دوسروں کے دست نگر نظر آتے ہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC) نے ان ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا ہے ۔ اس کا مرکزی دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہے۔
اس تنظیم کے تمام اجلاسوں میں عالم اسلام کو درپیش مسائل اور آپ کے تنازعات کے معاملے میں باہمی اتحاد اور یک جہتی پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مسلم اقتصادی برادری کی بنیاد ڈالنے، سائنسی تحقیق، تعلیم کے فروغ اور جدید ٹیکنالوجی کی ترقی کے لئے اشتراک عمل پیدا کرنے کی ضرورت بھی محسوس کی گئی۔ عالم اسلام کا امریکہ کی سرمایہ دارانہ یہودی سازشوں کے خلاف متحد ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
علامہ اقبال ؒ کی روح پکار پکار کر کہہ رہی ہے
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

سبق 20

تفاق باب نمبر 20
مشق:
1۔ مختصر جواب دیں۔
(الف) ہمیشہ مل کر رہنے کے نتیجے کیسے ہوتے ہیں؟
جواب: ہمیشہ مل کر رہنے کے نتیجے نیک ہوتے ہیں۔
(ب) کامیابی کا رستہ کون دکھاتا ہے؟
جواب: کامیابی کا رستہ ایکا دکھاتا ہے۔
(ج) کونسی مثل مشہور ہے؟
جواب: یہ مثل مشہور ہے : ’’دو مل کے بھاری ہوں ہزاروں پر۔‘‘
(د) کمزور بوندیں کیسے طوفان اٹھاتی ہیں؟
جواب: کمزور بوندیں جب آپس میں مل جاتی ہیں تو پھر طوفان اٹھاتی ہیں۔
(ہ) بربادی کہاں ہوتی ہے؟
جواب: بربادی وہاں ہوتی ہے جہاں نااتفاقی ہوتی ہے۔
2۔ مناسب الفاظ کی مدد سے خالی جگہ پر کریں۔
(الف) ہمیشہ مل کے رہنے کے نتیجے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوتے ہیں۔
(ب) یہی ایکا تو رستہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا دکھاتا ہے۔
(ج) مثل مشہور ہے دو مل کے بھاری ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر۔
(د) جو مل جاتی ہیں آپس میں تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اٹھاتی ہیں۔
(ہ) وہیں ہوتی ہے بربادی جہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے۔
جواب: (الف) نیک (ب) کامیابی (ج) ہزاروں (د) طوفان (ہ) نااتفاقی

3۔ درج ذیل الفاظ کے مترادف لکھیں۔
کامیابی ۔ بوند۔ قوت۔ لطف۔ جھگڑا۔ ایکا۔ زندگی۔
الفاظ مترادف
کامیابی فتح
بوند قطرہ
قوت طاقت
لطف مزہ
جھگڑا لڑائی
ایکا اتفاق
زندگی زیست
4۔ نظم ’’اتفاق‘‘ کے متن کے مطابق درست جواب کی نشاندہی ( ) سے کریں۔
(الف) مل جل کر رہنے کے کیا نتائج ہوتے ہیں؟
i۔ اچھے ii۔ برے
iii۔ نیک iv۔ مفید
(ب) جہاں دل ایک ہوں، وہاں کیا ہوتا ہے؟
(i) مزہ (ii) ایکا
(iii) اتحاد (iv) حوصلہ
(ج) مشکل وقت میں کیا کام آتا ہے؟
(i) خدا (ii) روپیا
(iii) دوست (iv) ایکا
(د) کتنے مل کر ہزاروں پر بھاری ہوتے ہیں؟
(i) دو (ii) تین
(iii) گیارہ (iv) دس
(ہ) ایکا ہمیں کون سا راستہ دکھاتا ہے؟
(i) نجات کا (ii) خوشی کا
(iii) آخرت کا (iv) کامیابی کا
(و) آپس میں مل کر طوفان اٹھاتی ہیں:
(i) نہریں (ii) بوندیں
(iii) لہریں (iv) موجیں
جواب: (الف) iii (ب) i (ج) iv (د) i (ہ) iv (و) ii
5۔ درج ذیل الفاظ کو جملوں میں استعمال کریں۔
ملاپ ۔ لطف ۔ نشان ۔ قسمت ۔ نااتفاقی
الفاظ جملے
ملاپ آپس کا ملاپ زمانے میں سب سے بڑی طاقت ہے۔
لطف نظم پڑھ کر بہت لطف آیا۔
نشان باہمی اتفاق کامیابی کا نشان ہے۔
قسمت جو لوگ آپس میں دشمن ہوں وہ قسمت کے مارے ہوتے ہیں۔
نااتفاقی نااتفاقی، بربادی کا باعث ہے۔
6۔ اس نظم میں کن لوگوں کو ’’قسمت کے مارے‘‘ کہا گیا ہے؟
جواب: اس نظم میں ان لوگوں کو ’قسمت کے مارے‘ کہا گیا ہے جو آپس میں دشمن ہوں۔
7۔ ’’اتفاق میں برکت‘‘ کے موضوع پر کوئی کہانی تحریر کریں۔
جواب: اتفاق میں برکت ہے
کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا۔ وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھا کہ اس کے چار بیٹے تھے، لیکن اسے اس بات کا بہت دکھ تھا کہ اس کے بیٹے ہمیشہ آپس میں لڑتے رہتے تھے وہ چاہتا تھا کہ اس کے بیٹے آپ میں محبت اور اتفاق سے رہیں وہ انہیں بہت سمجھاتا لیکن ان پر اس کا کچھ اثر نہ ہوتا۔ بیچارا باپ اس وجہ سے بہت غمگین رہتا تھا۔
آخر کسان اسی غم میں بیمار پڑ گیا۔ اس کا بہت علاج کیا گیا لیکن وہ ٹھیک نہ ہوا حتیٰ کہ اس کے بچنے کی امید نہ رہی۔ اس نے سوچا کہ میرا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتفاق سے رہیں آخر اسے ایک تجویز سوجھی۔
کسان نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ وہ کچھ لکڑیاں لائیں۔ جب وہ لکڑیاں لے آئے تو باپ نے کہا کہ انہیں باندھ کر ایک گٹھا بناؤ۔ بیٹوں نے ایسا ہی کیا۔ اب باپ نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ وہ اس گھٹے کو باری باری توڑیں۔ ہر بیٹے نے پوری کوشش کی لیکن کوئی بھی گٹھا نہ توڑ سکا۔
اب باپ نے بیٹوں سے کہا کہ وہ گٹھے کو کھول دیں۔ بیٹوں نے ایسا ہی کیا۔ باپ نے ہر بیٹے کو ایک ایک لکڑی دی اور اسے توڑنے کے لئے کہا۔ ہر ایک نے اپنی اپنی لکڑی توڑ دی۔
اب باپ نے اپنے بیٹوں کو سمجھایا کہ تمہیں اس سے اتفاق کس سبق سیکھنا چاہیے۔ اگر تم اکٹھے رہو گے تو کامیاب رہو گے کوئی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا لیکن اگر تم الگ الگ رہو گے تو پھر ناکام ہو جاؤ گے اور دشمن تم پر غالب آ جائے گا۔
باپ کی یہ بات بیٹوں کے دلوں میں گھر کر گئی۔ انہوں نے اپنے باپ سے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ اتفاق سے رہیں گے۔ باپ کا دل باغ باغ ہو گیا اور اس کے بعد وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کو پیارا ہو گیا۔
نتیجہ: اتفاق میں برکت ہے۔
8۔ نظم ’’اتفاق‘‘ کا خلاصہ تحریر کریں۔
جواب: شاعر کہتا ہے جو قومیں اکٹھی رہتی ہیں، جن میں اتحاد و اتفاق ہوتا ہے تو وہی قوم سرخرو اور کامیاب ہوتی ہیں اور زندگی کا مزہ بھی وہیں پر ہوتا ہے جہاں سب لوگ دل سے ایک ہو جائیں اور یہی اتحاد اور اتفاق کامیابی کے زینوں پر چڑھاتا ہے اور بڑی سے بڑی مشکل بھی اتحاد و اتفاق سے حل کی جا سکتی ہے۔ جو لوگ آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں اور ایک دوسرے کا جانی دشمن بن جاتے ہیں ایسے لوگ قسمت کے بدنصیب ہوتے ہیں اور ان قسمت کے ماروں پر رحم آتا ہے کہ یہ لوگ کتنے بدنصیب ہیں اور اتحاد کی نعمت سے محروم ہیں۔ کیوں کہ مشہور کہاوت ہے کہ دو آدمی مل کر ایک ہو جائیں تو وہ ہزاروں پر بھاری ہو جاتے ہیں۔
بارش کے وہ قطرے جو بکھر کر نااتفاقی سے زمین پر گریں وہ فوری طور پر اپنی موت مر جاتے ہیں اور یک دم خشک ہو جاتے ہیں لیکن بارش کے وہ قطرے جو باہم اتحاد سے مل کر برسیں وہی پانی سیلاب اور طوفان بن کر اٹھ جاتا ہے۔ اگر تم آپس میں اکٹھے ہو اور تم میں ایک ہونے کی نعمت باقی ہے تو پھر تمہیں کسی سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ یاد رکھو وہ قوم تباہ و برباد ہو جاتی ہے جو نااتفاقی اور جھگڑے کا شکار ہوتی ہے کیوں کہ نااتفاقی کا انجام بربادی ہے۔
کائنات کی ہر چیز ہمیں یہی درس دیتی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت تب ہی بن سکتے ہو اگر آپس میں متحد و متفق رہے ورنہ زمانہ روندتا ہوا گزر جاتا ہے۔
9۔ کالم(الف) میں دئیے گئے الفاظ کو کالم (ب) کے متعلقہ الفاظ سے ملائیں۔
کالم الف کالم ب
ناکامی تباہی
بد فیکٹریاں
بوندیں نیک
بربادی کامیابی
کارخانے قطرے

جواب :
ناکامی کامیابی
بد نیک
بوندین قطرے
بربادی تباہی
کارخانے فیکٹریاں

 

زراعت و صنعت باب نمبر 21
مشق:
1۔ مختصر جواب دیں۔
(الف) سائنسی ترقی کی بدولت پانی کی عدم دستیابی کا مسئلہ کیسے حل ہوا ہے؟
جواب: سائنسی ترقی کی بدولت پانی کی عدم دستیابی کا مسئلہ ایسے حل ہوا ہے کہ کسان پہلے صرف بارش کے پانی پر انحصار کرتے تھے لیکن آج نہری نظام ، ٹیوب ویل اور کاریز وغیرہ کی وجہ سے پانی کی عدم دستیابی مسئلہ نہیں رہی۔ 
(ب) کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار کن دو شعبوں پر ہے؟
جواب: کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار زراعت اور صنعت کے شعبوں پر ہے۔
(ج) بچے زرعی فارم کی سیر کیوں کرنا چاہتے تھے؟
جواب: بچے زرعی فارم کی سیر اس لئے کرنا چاہتے تھے کہ استاد صاحب کی بتائی باتوں کی روشنی میں عملی طور پر مشینوں کا کام کرتے ہوئے دیکھ سکیں۔
(د) زرعی شعبے میں ٹریکٹر کی آمد سے کیا تبدیلی آئی ہے؟ 
جواب: جب کسانوں کو ٹریکٹر میسر نہیں تھا تو وہ بیلوں کی جوڑوں سے خود ہل چلایا کرتے تھے۔ اس طرح دن بھر کی بہت زیادہ مشقت کے بعد وہ بہت تھوڑا کام کر پاتے تھے لیکن اب ٹریکٹر کی بدولت مہینوں کا کام دنوں میں کرنے پر قادر ہیں۔
(ہ) بغیر موسم کی سبزیاں کیسے اگائی جاتی ہیں؟ 
جواب: بغیر موسم کی سبزیاں کیمیائی کھاد، پانی کی فراہمی، درجہ حرارت کو کنٹرول کر کے اور سائنسی آلات کے استعمال کی بدولت اگائی جاتی ہیں۔
(و) گنے سے چینی کیسے بنائی جاتی ہے؟
جواب: گنے کو جدید مشینوں میں ڈالا جاتا ہے جو بڑی تیزی اور صفائی سے گنے کا پھوک ا ور رس الگ الگ کر دیتی ہیں۔ اس کو جدید ترین پلانٹ کے ذریعے چینی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
2۔ درج ذیل الفاظ کے معنی لکھیں۔
گامزن ۔ ضیاع۔ سیراب۔ محفوظ۔ انحصار
الفاظ مترادف
گامزن چلنا
ضیاع نقصان
سیراب پانی سے بھرا ہوا
محظوظ لطف اٹھانا
انحصار دارومدار
3۔ درج ذیل الفاظ کے متضاد لکھیں۔
ترقی ۔ خوشحالی۔ ابتداء۔ افادیت۔ عدم دستیابی
الفاظ متضاد
ترقی پسماندگی
خوشحالی تنگ دستی
ابتداء انتہا
افادیت ضیاع
عدم دستیابی دستیابی
4۔ اعراب کی مدد سے درج ذیل کا تلفظ واضح کریں۔
مسافت ۔ مشقت ۔ رائج۔ انقلاب۔ مقدار
جواب: مسافت ۔ مشقت ۔ رائج۔ انقلاب۔ مقدار
5۔ درج ذیل کو جملوں میں اس طرح استعمال کریں کہ ان کی تذکیر و تانیث واضح ہو جائے۔
زراعت ۔ صنعت ۔ مسافت ۔ انحصار ۔ پیداوار
الفاظ جملوں میں استعمال 
زراعت پاکستان کی ترقی اس کی زراعت و صنعت سے وابستہ ہے۔
صنعت پاکستان کی صنعت ترقی پذیر ہے۔
مسافت چند منٹ کی مسافت کے بعد ہم شہر پہنچ گئے۔
انحصار کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کا انحصار اس کی زراعت و صنعت پر ہوتا ہے۔
پیداوار سائنسی ترقی کی بدولت کم وقت اور تھوڑی محنت سے زیادہ پیداوار حاصل ہوئی ہے۔
6۔ سبق ’’صنعت و زراعت‘‘ کو پیش نظر رکھتے ہوئے درست جواب کی نشاندہی ( ) سے کریں۔
(الف) قدیم زمانے میں زراعت کے پرانے طریقے :
i۔ مستعمل تھے ii۔ رائج تھے
iii۔ جاری تھے iv۔ قائم تھے
(ب) سائنسی ترقی کی بدولت کس میں انقلاب آیا؟
(i) زرعی میدان میں (ii) زرعی دنیا میں
(iii) زرعی شعبے میں (iv) زرعی فارم میں
(ج) فارم کی سیر کرنے کے لئے ایک مقرر کی گئی:
(i) کمیٹی (ii) ٹیم
(iii) گاڑی (iv) تاریخ
(د) بچے کن کو دیکھ کر ششدر رہ گئے ؟
(i) بغیر موسم کی سبزیوں کو (ii) بغیر موسم کے پھلوں کے
(iii) جدید زرعی مشینوں کو (iv) سر سبز کھیتوں کو
(ہ) ہارویسٹر مشین کتنے آدمیوں کا کام کرتی ہے؟
(i) دو آدمیوں کا (ii) درجنوں آدمیوں کا
(iii) بیسیوں آدمیوں کا (iv) سیکڑوں آدمیوں کا
(و) بچے نت نئے آلات اور جدید طریقہ ہائے کار کو دیکھ کر:
(i) خوش ہوئے (ii) محظوظ ہوئے
(iii) حیران ہوئے (iv) مسرور ہوئے
(ز) ابتداء میں کسان صرف بارش کے پانی پر کرتے تھے:
(i) بھروسا (ii) امید
(iii) انحصار (iv) اعتبار
جواب: (الف) ii (ب) ii (ج) iv (د) i (ہ) iv (و) ii (ز) iii 
7۔ درست اور غلط بیانات کی نشاندہی کریں۔
(الف) ملکوں کی ترقی و خوشحالی کا انحصار زراعت و صنعت سے وابستہ ہے۔ درست / غلط
(ب) بنیادی طور پر پاکستان ایک صنعتی ملک ہے۔ درست / غلط
(ج) ہمارے ہاں زراعت کے پرانے طریقے رائج ہیں۔ درست / غلط
(د) گنے سے چینی، گڑ، میدہ اور سوجی بنائی جاتی ہے۔ درست / غلط
(ہ) سائنسی ترقی کی بدولت، پانی کی عدم دستیابی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو گیا ہے۔ درست / غلط
جواب: الف : درست ، ب: غلط ، ج: غلط ، د: غلط ، ہ: درست
8۔ گنے سے چینی کیسے بنائی جاتی ہے؟ تفصیل سے لکھیں۔
جواب: ٹرکوں کے ذریعے زرعی فارم سے گنے کو شوگر مل میں لایا جاتا ہے اور اسے جدید مشینوں میں ڈالا جاتا ہے جو بڑی تیزی اور صفائی سے گنے کا پھوک اور رس الگ الگ کر دیتی ہیں۔ پھوک کو سوکھنے کے لئے ایک طرف ڈال دیا جاتا ہے جو بعد میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور رس کو جدید ترین پلانٹ کے ذریعے چینی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
9۔ اس سبق کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیں۔
جواب: کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کا انحصار اس کی زراعت و صنعت پر ہے۔ زراعت و صنعت انسانی زندگی کے دو ایسے شعبے ہیں، جن کی بدولت زندگی کا نظام قائم ہے۔ پاکستان بھی دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جو زرعی اور صنعتی اعتبار سے ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ بنیادی طور پر ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے جو اپنی مختلف فصلوں، پھلوں اور سبزیوں کے حوالے سے دنیا کے اہم زرعی ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔
قدیم زمانے میں دوسرے ملکوں کی طرح ہمارے ہاں بھی زراعت کے پرانے طریقے رائج تھے، اس طرح وقت اور محنت کا ضیاع بھی ہوتا تھا اور فصلوں کا معیار اور مقدار بھی تسلی بخش نہ تھی۔ زمانے کے بدلتے ہوئے حالات اور سائنسی ترقی کی بدولت زرعی دنیا میں ایک انقلاب آیا۔ نت نئے آلات، جدید طریقہ ہائے کار، بیج کھادوں اور جراثیم کش ادویات کی بدولت زراعت کے شعبے نے ایک نیا انداز اختیار کیا۔ ابتداء میں کسان صرف بارش کے پانی پر انحصار کرتے تھے لیکن آج نہری نظام، ٹیوب ویل اور کاریز وغیرہ کی وجہ سے پانی کی عدم دستیابی مسئلہ نہیں رہی۔ استاد صاحب نے جب یہ باتیں بچوں کو بتائیں تو انہوں نے اصرار کیا کہ ہمیں بھی زرعی فارم کی سیر کرائی جائے تا کہ ہم آپکی بتائی ہوئی ان باتوں کی روشنی میں عملی طور پر مشینوں کو کام کرتے ہوئے دیکھ سکیں۔
بچوں کے شوق کو دیکھتے ہوئے استاد محترم نے ہیڈماسٹر صاحب سے اجازت لی اور استاد صاحب نے زرعی فارم کے منیجر کو خط لکھا۔خط میں اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ ہم آپ کے زرعی فارم کے مطالعاتی دورے پر آنا چاہتے ہیں۔ 
ہفتے عشرے میں زرعی فارم کے منیجر کی جانب سے دعوت نامہ مل گیا ایک تاریخ مقرر کی گئی۔ بچے فارم دیکھنے کے لئے بے چین تھے۔
مقررہ دن کو چھٹی جماعت کے طلباء اپنے استاد کی راہنمائی میں زرعی فارم دیکھنے کے لئے روانہ ہو گئے۔ ایک گھنٹے کے سفر کے بعد طلبہ فارم کے دروازے پر تھے۔ زرعی فارم کے دروازے پر منیجر اور ان کی ٹیم نے بچوں کو خوش آمدید کہا اور انہیں فارم کے اندر لے گئے۔
منیجر صاحب نے دس منت تک بچوں کو فارم میں اگنے والی فصلوں ، پھلوں اور سبزیوں سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بچوں کو زرعی آلات کے ماڈل بھی دکھائے جو مختلف فصلوں کی بوائی سے لے کر ان کی کاشت اور کٹائی تک کے مراحل میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
اس تعارفی نشست کے بعد دو رہنماؤں کی نگرانی میں طلبہ کو فارم میں بھیجا گیا۔ ان رہنماؤں نے بچوں کو دکھایا کہ ٹریکٹر زمین میں کس طرح ہل چلا رہے ہیں اور بوائی کر رہے ہیں ساتھ ساتھ وہ بچوں کو پرانے طریقہ کار سے بھی آگاہ کرتے رہے کہ جب کسانوں کو ٹریکٹر میسر نہیں تھا تو وہ بیلوں کی جوڑی کی مدد سے خود ہل چلایا کرتے تھے۔
ایک طرف ہارویسٹر مشین گندم کی فصل کاٹنے کے ساتھ ساتھ دانے علیحدہ کرنے میں مصروف تھی۔ ایک رہنما نے بچوں کو اس مشین کی افادیت سے آگاہ کرتے ہوئے اس کے کام کرنے کے تمام مراحل سے متعارف کر ا دیا۔ بچے رہنما کی بات سن کر حیران رہ گئے کہ یہ مشین کس طرح سیکڑوں آدمیوں کا کام کر رہی ہے بچوں نے ٹیوب ویل کے ذریعے فصلوں کو سیراب کرنے کے عمل کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
اس طرح بچوں کو ایک کھیت میں ایسی سبزیاں دکھائی گئیں جن کا موسم گزر چکا تھا۔ بچے ان سبزیوں کو دیکھ کر ششدر رہ گئے۔
ایک رہنما نے انہیں بتایا کہ کیمیائی کھاد، پانی کی فراہمی، درجہ حرارت کو کنٹرول کر کے اور سائنسی آلات کے استعمال کی بدولت اب ہر موسم میں ہر سبزی کو اگایا جا سکتا ہے۔ 
خاصی دیر فارم میں کاشت کاروں کے درمیان رہ کر انہوں نے انسان کی جگہ مشینوں کو کام کرتے دیکھا۔ وہ اتنے خوش تھے کہ انہیں وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہوا۔ اب وہ تھک چکے تھے لہذا انہوں نے واپسی کا پروگرام بنایا۔ منیجر نے بچوں کو کھانے کے لئے لنچ باکس دئیے۔ منیجر نے استاد صاحب کو بتایا کہ جب آپ نے بچوں کو زرعی فارم کی سیر کرائی ہے تو ساتھ ہی میرے بڑے بھائی کی شوگر مل کی سیر کرتے چلیے۔ استاد صاحب نے بچوں سے پوچھا کہ کیا وہ شوگر مل کی سیر کرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ بچوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ وہ شوگر مل دیکھنے چلیں گے۔ زرعی فارم سے شوگر مل کا فاصلہ کچھ زیادہ نہ تھا لہذا بچے منیجر اور استاد صاحب کی نگرانی میں پیدل روانہ ہوئے۔ چند منٹ کی مسافت کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو شوگر مل کے سامنے پایا۔ منیجر نے اپنے بھائی کے بارے میں پوچھا تو ملازم نے بتایا کہ وہ شہر گئے ہیں۔ منیجر نے ملازم سے کہا کہ یہ بچے شوگر مل دیکھنے آئے ہیں ، انہیں دکھایا جائے کہ کس طرح گنے سے چینی بنائی جاتی ہے۔ بچوں نے دیکھا کہ ایک طرف گنے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور مشینیں اپنے کام میں رواں دواں ہیں۔ بچوں کو بتایا گیا کہ ٹرکوں کے ذریعے زرعی فارم سے گنے کو یہاں لایا جاتا ہے اور اسے جدید مشینوں میں ڈالا جاتا ہے۔ جو بڑی تیزی اور صفائی سے گنے کا پھوک اور رس الگ الگ کر دیتی ہیں۔ پھوک کو سوکھنے کے لئے ایک طرف ڈال دیا جاتا ہے جو بعد میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس رس کو جدید ترین پلانٹ کے ذریعے چینی میں تبدیل کر دیا جاتاہے۔ بچے یہ منظر دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ بچوں کو گھومتے پھرتے مشینوں کو دیکھتے اور کارندوں سے سوال و جواب کرتے خاصی دیر ہو چکی تھی۔ ا ب وہ بہت زیادہ تھک چکے تھے جب استاد صاحب نے واپسی کا اعلان کیا تو وہ خوش دلی سے بس میں بیٹھ گئے، استاد صاحب نے منیجر کا شکریہ ادا کیا کہ ان کے تعاون سے بچوں کو نہ صرف زرعی فارم بلکہ شوگر مل دیکھنے کا بھی موقع مل گیا جس سے بچوں کی معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔
10۔ کالم (الف) میں دئیے گئے الفاظ کو کالم (ب) کے متعلقہ الفاظ سے ملائیں۔
کالم (الف) کالم (ب)
زراعت ادویات
جراثیم کش رہنمائی
زرعی فارم ایندھن
استاد صنعت
پھوک ماڈل
جواب:
زراعت صنعت
جراثیم کش ادویات
زرعی فارم ماڈل
استاد رہنمائی
پھوک ایندھن

میری پیاری سائیکل باب نمبر 22
مشق:
1۔ مختصر جواب دیں۔
(الف) ہم اپنی معمولی اشیاء کی قدر کب اور کیسے کرتے ہیں؟
جواب: ہم اپنی معمولی اشیاء کی قدر اس وقت کرتے ہیں جب وہ داغ مفارقت دے جاتی ہیں۔ 
(ب) مصنف کو کس شرط پر سائیکل دلانے کا وعدہ کیا گیا؟
جواب: مصنف کو جماعت میں اول آنے کی شرط پر سائیکل دلانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
(ج) دادا جی نے کیسی سائیکل لے کر دی؟
جواب: دادا جی نے زمانہ قبل مسیح کی سائیکل لے کر دی یعنی بہت پرانی سائیکل لے کر دی۔
(د) سائیکل کو بریک کس طرح لگائی جاتی تھی؟
جواب: سائیکل کو بریک لگانے کا انوکھا ہی طریقہ تھا پچھلی بریک غائب تھی اور اگلی بریک لگانے کے لئے اسے ہینڈل سے بھی اوپر لے جانا پڑتا تھا۔ ہنگامی بریک لگانے کے لئے پاؤں تاروں میں دینا پڑتا تھا۔
(ہ) سائیکل کے بارے میں ساتھی کیا سرگوشیاں کرتے تھے؟ 
جواب: سائیکل کے بارے میں ساتھی اس قسم کی سرگوشیاں کرتے تھے ’’طاہر نے اس کا لُون لے لیا ہے‘‘۔
(و) مصنف نے سائیکل سے جان چھڑانے کا کیا حربہ استعمال کیا اور اس کا کیا نتیجہ نکلا؟
جواب: مصنف نے سائیکل سے جان چھڑانے کے لئے اسے بغیر تالے کے گھر کے باہر چھوڑا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی بھی سائیکل کو لے کر نہیں گیا۔
2۔ سبق ’’میری پیاری سائیکل‘‘ کو پیش نظر رکھتے ہوئے درست جواب کی نشاندہی ( ) سے کریں۔
(الف) مصنف کو کس کی یاد ستا رہی تھی؟
i۔ گھر کی ii۔ سائیکل کی
iii۔ دوستوں کی iv۔ والدین کی
(ب) والد صاحب نے سائیکل کی حالت بہتر بنانے کے لئے کیا کیا؟
(i) رنگ و روغن کرایا (ii) نئے ٹائر ڈلوائے
(iii) اوور ہالنگ کرائی (iv) نئی گدی اور بریکیں لگوائیں
(ج) پہلی مرتبہ سائیکل دیکھ کر منصف کی کیا کیفیت ہوئی؟
(i) خوشی سے قہقہے لگائے (ii) دل ہی دل میں خوش ہوا
(iii) پریشان ہو گیا (iv) آنکھوں میں آنسو آ گئے
(د) وقت کے ساتھ ساتھ سائیکل کی کیا حالت ہو گئی؟
(i) خوب رواں ہو گئی (ii) چند سریے رہ گئے
(iii) رنگ و روغن کر دیا گیا (iv) ناکارہ ہوگئی
(ہ) دادا جینے کیا دلانے کا ذمہ لیا؟ 
(i) جائز مقام (ii) حق
(iii) رقم (iv) دوا
جواب: (الف) ii (ب) iii (ج) iv (د) ii (ہ) ii 
3۔ درج ذیل الفاظ کے معنی لکھیں۔
ماجرا ۔ یکتا ۔ لاثانی ۔ ہم عصر ۔ کارآمد
جواب الفاظ معانی
ماجرا معاملہ
یکتا واحد
لاثانی بے مثل
ہم عصر ہم زمانہ
کارآمد مفید، کام آنے والا

4۔ درج ذیل الفاظ کے متضاد لکھیں۔
عزیز ۔ اولین ۔ آشکارا ۔ بے سود
جواب: الفاظ متضاد
عزیز غیر ، اجنبی
اولین آخرین
آشکارا پوشیدہ
بے سود سود مند
5۔ درج ذیل محاورات و مرکبات کی وضاحت کریں۔
کایا پلٹنا ۔ داغِ مفارقت دینا ۔ حقیقت آشکارا ہونا ۔ دورانِ آزمائش۔ امید واثق
الفاظ و محاورات معانی جملوں میں استعمال
کایا پلٹ حالت بدلن سائیکل کی اوور ہالنگ کے بعد اس کی کایا ہی پلٹ چکی تھی۔
داغِ مفارقت دینا جدا ہو جانا صالح کی سائیکل اسے داغِ مفارقات دے گئی۔
حقیقت آشکارا ہونا حقیقت واضح ہونا معاملے کی تمام حقیقت آشکارا ہو چکی تھی۔
دورانِ آزمائش آزمانے کے دوران دورانِ آزمائش ہی سائیکل خراب ہو گئی۔
امید واثق پختہ امید امید واثق ہے کہ امتحان میں کامیابی ہو گی۔
6۔ درج ذیل الفاظ کو جملوں میں اس طرح استعمال کریں کہ ان کی تذکیر و تانیث واضح ہو جائے۔
کاغذ ۔ حسن ۔ آزمائش ۔ امید ۔ بھوک
الفاظ جملے
کاغذ ایک نیا کاغذ چاہیے۔
حسن سائیکل کی اوور ہالنگ سے سائیکل کا حسن نکھر آیا۔
آزمائش پیر نے اپنے مرید کی آزمائش کی۔
امید صالح کو نئی سائیکل ملنے کی امید تھی۔
بھوک بچے کو بھوک لگی تھی
7۔ اس کہانی کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیں۔
جواب: آج میں پہلی بار پیدل آیا ہوں تو مجھے احساس ہوا کہ اپنی معمولی سے معمولی چیز بھی کتنی کارآمد ہوتی ہے۔ واقعی وہ تمام اشیاء جو ہمارے پاس ہوتی ہیں ہم ان کی قدرت نہیں کرتے لیکن جب وہ داغ مفارقت دے جاتی ہیں تو پھر ہم ان کے سوئم اور چہلم مناتے ہیں۔ آج میں یہ ’’حق سچ کا اعلان‘‘ اس لئے کر رہا ہوں کہ مجھے اس سائیکل کی یاد ستا رہی ہے جو میرے پاس بزرگوں کا ایک پیش قیمت ورثہ ہے۔
یہ سائیکل میرے ہاتھ کیسے لگی؟ یہ ماجرا بھی بڑا دلچسپ ہے۔ میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا۔ سارا دن گلی ڈنڈا اور پتنگ بازی میں گزار دیتا۔ اس میدان میں ، میں یکتا و لاثانی تھا۔ والد محترم کو میرے یہ لچھن ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ انہوں نے اپنے تمام تر حقوق و اختیارات مجھے پر آزما ڈالے لیکن میں نے بھی ہار نامہ مانی نہ وطیرہ بدلا۔
ان کا ایک حربہ مجھ پر نہ جانے کس طرح اثر انداز ہو گیا۔ شاہد نہ سمجھی کم سنی کی وجہ سے میں ان کی باتوں میں آ گیا۔ وہ حربہ اور دلاسا بلکہ چکما یہ تھا کہ بیٹے اگر تم جماعت میں اول آجاؤ تو میں تمہیں اس وقت ایک نئی سائیکل خرید دوں گا۔ بچہ تھا لالچ میں آ گیا۔دن رات کی ، کچھ ’’ٹیوشن کی رقم‘‘ نے اثر دکھایا اور میں جماعت میں اول آ گیا۔ اب تو میں اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے خیالوں ہی خیالوں میں سائیکل پر ’’روڈ ماسٹری‘‘ کر رہا ہوتا۔ لیکن جب میں نے دیکھا کہ ابا جان ٹال مٹول اور حیلوں بہانوں سے کام لے رہے ہیں تو میں نے بھی احتجاج شروع کر دیا۔ مثلاً توڑ پھوڑ، ہڑتال پر بھوک ہڑتال، یہاں تک کہ چھوٹے بھائیوں کی مرمت۔ جب انتظامیہ پر یہ حقیقت آشکارا ہو گئی کہ نئی نسل کو دبانا کوئی آسان کام نہیں ۔ تو انہوں نے مجھ سے مذاکرات شروع کر دئیے۔ میرے دادا جی نے مجھے میرا حق دلانے کا ذمہ لیا۔ اب تو میں ہر وقت دادا کے ساتھ سائے کی طرح چپکا رہتا۔ ڈاکٹر کی دوا کی طرح ہر تین گھنٹے کے بعد دادا جی کو ان کا وعدہ یاد دلاتا اور دادا جی بھی ہر بار ’’یاد ہے بیٹے‘‘ ہمیں سب یاد ہے۔ کل ہی تمہیں سائیکل لے کر دیں گے کہہ کر ٹرخا دیتے لیکن وہ خوش قسمت کل نہ آیا۔
آخر کار دادا نے اپنے کسی ہم عصر عزیز سے زمانہ قبل مسیح کی ایک عدد سائیکل میرے لئے خرید ڈالی۔ سائیکل کو غور سے دیکھا تو میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ میں چیختا چلاتا سائیکل کو گھسیٹتا والد محترم کے حضور پیش ہو گیا اور شکایت کہ کہ دادا جی نے میرے ساتھ سنگین مذاق کیا ہے۔ انہوں نے مجھے جان بوجھ کر اپنے دادا سے بھی زائد العمر یہ سائیکل خرید دی ہے۔ مجھے یہ سائیکل نہیں چاہیے، لیکن لکھے ہوئے مقدر کی طرح چارو نا چار یہ سائیکل قبول کرنا ہی پڑی۔ کیوں کہ والد محترم نے نہایت مشفقانہ انداز میں مجھ سے کہا بیٹے پھر کیا ہوا اگر پرانی ہے میں ابھی اسے خالد سائیکل ورکس والوں کو دے آتا ہوں وہ اس کی مکمل اوور ہالنگ کر دیں گے اور کسی کو شک بھی نہیں ہو گا کہ یہ نئی ہے یا پرانی۔
یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ ابا جی نے سائیکل اٹھائی اور خالد سائیکل ورکس والوں کو دے آیا۔ انہوں نے دو دن بعد دینے کا وعدہ کیا۔ یہ دو دن میں نے دیواروں، کرسیوں اور میزوں پر بیٹھ کر پیڈل گھمانے کے انداز میں ٹانگیں چلاتا رہا۔ مقررہ دن شام کو جب ابو دفتر سے لوٹے تو ان کے پاس میری سائیکل بھی تھی۔ اب تو اس کی کایاں ہی پلٹ چکی تھی۔ بڑھاپے میں بھی جوانی کا عالم تھا۔ اس میں کئی اضافے ہو چکے تھے۔ مثلاً گھنٹی۔ سٹینڈ۔ کیریئرROAD-PRINCE-007 کی نمبر پلیٹ وغیرہ وغیرہ ۔ رات بھر میں اس پر کاغذ چڑھاتا رہا تا کہ دوستوں کو بتا سکوں کہ یہ نئی خریدی ہے۔
صبح سویرے اٹھتے ہی میں نے سائیکل نکالی اور محلے میں گھومنا شروع کر دیا۔ اب تو دور نزدیک یہاں تک کہ پڑوسیوں کے گھر بھی کوئی کام ہوتا تو میں سائیکل پر ہی جاتا۔
میرے پاس یہی اس کی مختصر سی جوانی تھی۔ چندہی روز بعد سائیکل سے صدائے احتجاج ’’نہ چڑھ‘‘ نہ چڑھ۔ نہ چڑھ‘‘ بلند ہونا شروع ہو گئی۔ گویا پرانے پرزے بالآخر پرانے ہی نکلے ان کی بظاہر ’’ٹپ ٹاپ‘‘ بے سود نکلی۔ اب میں نے اس کے آگے سفید جھنڈا لگا دیا تا کہ دور سے آنے والا یہ سمجھ جائے کہ اس امن پسند سے ٹکر لینا مہنگا پڑے گا۔
وقت کے ساتھ ساتھ اب یہ سائیکل صرف ہینڈل پیڈل دو پہیوں اور چند سریوں پر مشتمل رہ گئی۔ باقی چیزیں شاید کباڑیوں کے پاس پہنچ چکی ہیں۔ ذرا وہ نقشہ تو آنکھوں کے سامنے لائیں، ایک اچھا بھلا شریف آدمی تین چار سریوں پر چڑھا کیسا لگتا ہو گا (یقیناًبازیگر) کیا لوگ اس کے احترام میں خود ہی راستہ نہ چھوڑ دیتے ہوں گے کہ کہیں یہ ہمارے سر ہی نہ چڑھے، یہی وجہ ہے کہ آج تک مجھے کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔
ویسے اکثر ہی یہ ہوتا ہے کہ جاتی دفعہ میں اس پر سوار ہوتا ہوں اور آتی دفعہ یہ، کیوں کہ خراب ہو جائے تو آدمی سمجھتا ہے چلو یار پیدل ہی چلتے ہیں لیکن یہ ایسی ضدی ہے کہ پیدل بھی نہیں چلنے دیتی اور پھر چھوٹے بچوں کی طرح مجبوراً اسے گودی اٹھانا پڑتا ہے۔
اس پر بیٹھا آدمی لگتا ایسے ہی ہے جیسے موٹر سائیکل چلا رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گدی ہینڈل سے کافی بلند اور دور ہے، پھر اس کے کھڑا ہونے اور بریکیں لگانے کا بھی انوکھا طریقہ ہے، پہلے تو پچھلی بریک سرے سے ہی غائب ہے اور اگلی جو لگتی ہے اسے ہینڈل سے بھی اوپر لے جانا پڑتا ہے تب کہیں جا کر رفتار میں کچھ کمی واقع ہوتی ہے اگر ہنگامی (فوری) بریک لگانا مقصود ہو تو پاؤں تاروں میں دینا پڑتا ہے۔
پچھلے موسم سرما کا ذکر ہے میں کالج سے گھر آ رہا تھا راستے میں اسے پتا نہیں کیا سوجھی کہ ایک سے دو بن بیٹھی، گویا ’’یک نہ شد دو شد‘‘ میں سرکس میں کام تو کرتا نہیں تھا جو ایک ہی پہلے پر چڑھ کر گھر پہنچ جاتا چنانچہ مجھے مجبوراً دونوں حصے الگ الگ ہاتھوں میں پکڑ کر گھر آنا پڑا۔ اہل محلہ میری طرف تعجب کی نگاہوں سے دیکھتے اور ازراہِ ہمدردی فرماتے ’’طاہر اگر پڑھائی چھوڑ دی تو پھر کوئی اور اچھا سا کام کرتے یہ بھی کوئی کام ہے‘‘۔
اب تو اپنی بے عزتی میں کوئی کسر باقی نہ رہی تھی چنانچہ میں نے قسم کھائی کہ آج کے بعد اس پر سواری کرنا میرے لئے حرام ہے۔ 
لوگ اب مجھے اس کی وجہ سے پہچانتے ہیں لیکن میں اسے ہاتھ تک نہیں لگاتا، ایک خاص مقصد کے لئے رکھ چھوڑا ہے یعنی جب بھی گھر میں کوئی سائیکل پڑا دیکھتا ہے تو تھوڑی دیر کے لئے مانگنے آ جاتا ہے، ہم اسے یہ بصد خوشی عنایت کر دیتے ہیں جب وہ واپس کر کے جاتا ہے تو شکرے کے ساتھ ساتھ سائیکل کی شان میں اس طرح قصیدہ گوئی کرتا ہے۔ ’’جناب آپ کی سائیکل نے بہت تنگ کیا ہے، کئی بار تو اسے پنکچر لگوایا لیکن دو گام نہ چلنے پایا تھا کہ پھر ٹائر نے صدا لگائی، تھم اے رہرو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا۔‘‘ یہ اس قدر پرانی ہے کہ نہ تو اسے کوئی خریدنے کو تیار ہوتا ہے اور نہ ہی میرا جی اس کو رکھنے کو کرتا ہے۔ ہزار بار کوشش کر چکا ہوں، حسن بھی نکھارا ہے اور خود بھی سمجھایا بجھایا ہے کہ ’’میری پیاری اب کسی اور سے گزارہ کر لو لیکن ظالم کو مجھ سے اس قدر محبت و عقیدت ہو چکی ہے کہ جانے کا نام ہی نہیں لیتی۔ جب کوئی گاہک غلطی سے پھنس ہی جاتا ہے تو یہ دوران آزمائش میں ہی اس سے گلے شکوے شروع کر دیتی ہے۔ اب یہ مشرقی سہاگن کی طرح جس گھر میں آئی تھی اسی کی ہو کر رہ گئی ہے اور امید واثق ہے کہ کسی دن اس کا جنازہ ہی ہمارے گھر سے اٹھے گا۔ اب تو میں اسے بلاقیمت ہی کسی کے سر منڈھنے کو تیار ہوں۔ اس مقصد کے لئے کئی بار اسے بغیر تالے کے باہر بھی چھوڑا لیکن کوئی اس حسینہ عالم کو اغوا بھی نہیں کرتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.