مضمون : سائنس کے کرشمے

مضمون : سائنس کے کرشمے

                 اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے پناہ صلاحےتوں سے نوازا ہے، جن میں سے علم سب سے اہم صلاحیت ہے۔انسان نے ان صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی لامحدود ذہنی صلاحیتوں ہی کی مرہونِ منت انسان نے سائنس کی ایجاد کی۔ سکول کے زمانے میں تقریباً ہر طالب علم کا پسندیدہ مضمون ”سائنس کے کرشمے“ ہوا کرتا تھا۔مجھے یاد ہے کہ اردو بی کے پیپر میں میری پہلی چوائس بھی سائنس کے کرشمے ہوا کرتا تھا۔تب سائنس کے کرشمے محدود تھے، جن میں ریل گاڑی، موٹرکار، بحری جہاز، ہوائی جہاز،ٹی وی ، ریڈیو، بجلی، کمپیوٹروغیرہ پر ہی لکھا جاتا تھا۔
آج کل تو لکھنے بیٹھو تو سائنس کے کرشمے ہی ختم نہ ہوں۔دورِ حاضر میں سائنس کی سب سے اہم ایجاد ”انٹرنیٹ“ ہے۔90ءکی دہائی میں پاکستان میں فائبر آپٹک کی لائن بچھائی گئی، جس کا کریڈٹ وزیراعظم میاںنوازشریف کو جاتا ہے کہ آج بچہ بچہ انٹرنیٹ سے استفادہ کررہا ہے۔پہلے انٹرنیٹ کا استعمال محدود سطح پر تھا، کیونکہ پہلے لوگوں کے پاس کمپیوٹر کم تھے، لیکن آج کل لیپ ٹاپ اور آئی فون (انٹرنیٹ) کی ریل پیل ہے اور بات لیپ ٹاپ، آئی فون سے آگے بڑھ کر ٹیبلٹ تک جا پہنچی ہے۔سائنس کی اس اہم ایجاد سے ہی پوری دنیا چند سیکنڈ میں آپ کے ہاتھ میں ہے۔ ایک کلک یا ٹچ کریں اور پوری دنیا سے رابطے میں آ جائیں۔ لاہور سے نیویارک کال ایک ٹچ کرنے سے ….قبل ازیں تو لینڈ لائین سے کال بک کراﺅ، پھر کئی گھنٹے کا انتظار۔
انٹرنیٹ کے وائی فائی (Wifi) کنکشنز نے تو مزید آسانی کردی، اگر آپ کے پاس آئی فون ہے اور اس میں ٹینگو Tango،وائبر Viber،وٹس آپپ Whatsapp،لائن UTVE،سکائپ SkYPہے اور ایسی ہی سب سہولتیں آپ کے کسی عزیز، دوست یا رشتے دار کے پاس بھی ہیں تو آپ بالکل مفت کال کر سکتے ہیں، نہ No Serviceکی ٹینشن ،نہ چارجز کا مسئلہ، دور حاضر میں سائنس کا سب سے بڑا کرشمہ انٹرنیٹ ہی ہے۔
انٹرنیٹ کی بدولت ملکی و غیر ملکی اخبارات، جرائد، میگزین اور رسالہ لوگوں کی رسائی میں ہیں۔تحقیق کے شعبے میں آگے بڑھنے کا شوق رکھنے والے بھی انٹرنیٹ سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔پرائیویٹ کمپنیوں کے ساتھ ساتھ سرکاری محکمے بھی کمپیوٹراور انٹرنیٹ کا استعمال کررہے ہیں۔پورا سسٹم کمپیوٹرائز ہو گیا ہے۔چاہے کسی طالب علم نے اپنا داخلہ بھیجنا ہے، کسی نے جاب کے لئے درخواست دینیہے، کسی نے بل جمع کروانا ہے، سب انٹرنیٹ کی مرہون منت وقت کی بچت کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔
پاکستان انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ملکوں میں سرفہرست ہے۔اس وقت تقریباً تین کروڑ سے زائد صارفین انٹرنیٹ استعمال کررہے ہیں۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ 25فیصد لوگ انٹرنیٹ پر بیٹھ کر غیر اخلاقی مواد دیکھتے ہیں اور ان تین کروڑ میں سے 65فیصد لوگوں کی عمر 11سال سے 25سال کے درمیان ہے۔پاکستان میں ایک سیکنڈ میں 30ہزار غیر اخلاقی ویب سائٹس دیکھی جاتی ہیں۔
انٹرنیٹ کی دنیا میں آج کل فیس بک اور ٹوئٹر مقبول عام ہے۔دنیا کی طرح پاکستان میں بھی اس کا پوری آب و تاب سے استعمال جاری و ساری ہے، تقریباً سوا دو کروڑ یوزرزفیس بک پر ہیں اور 70لاکھ کے قریب ٹوئٹر استعمال کررہے ہیں۔فیس بک اور ٹوئٹر کا تعمیری استعمال بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔پاکستان اور کئی دوسرے ملکوں میں اس کو بھی منفی طریقوں سے استعمال کیا جا رہا ہے۔جعلی اکاﺅنٹ بنا کر لوگوں کو دھوکا دیا جارہا ہے۔بچوں سے دوستی کرکے انہیں اغوا کیا جاتا ہے اور تاوان مانگا جاتا ہے، جس کا جو دل چاہے، پوسٹ کردے، جعلی ایگزیکٹو آرڈرز پوسٹ کئے جاتے ہیں، جسے مرضی کوئی گالی دے دو،جتنی مرضی مذہبی فرقہ واریت پھیلا دو۔نفرت اور اشتعال انگیز مواد پوسٹ کردو نہ کوئی پوچھنے والا، نہ کوئی ڈرخوف۔
چین نے ایک ایسا سوفٹ ویئر بنایا ہے، جس سے 1000000ویب سائٹس کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور چین میں ہر کمپیوٹرمیں اسے انسٹال کرنا ضروری قرار دیا گیاہے۔اگر ہمارا آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ بھی ایسا کوئی سوفٹ ویئر تیار کرے تو غیر اخلاقی مواد دیکھنے اور فیس بک، ٹوئٹر کو غلط استعمال کرنے والوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
ڈرون بھی سائنس کا اہم کرشمہ ہے،جس نے دنیا کے کئی ممالک میں تباہی پھیلائی ہوئی ہے، جن میں پاکستان کے شمالی علاقے بھی شامل ہے۔چند روز قبل یونیفائیڈ میڈیا کلب کے زیر اہتمام پرل کانٹی نینٹل ہوٹل لاہور میں ڈرون ڈاکومنٹری کی تعارفی تقریب ہوئی۔یہ ڈاکومنٹری لاہور کی طالبہ عائشہ غازی نے بنائی۔سائنس کی اس طالبہ نے 11سال قبل تعلیم کے لئے لندن جانے کا سوچا پھر چلی گئیں۔شادی بھی وہاں ہو گئی اور پھر وہیں کی ہو کر رہ گئیں۔شاعری کا بھی شوق رکھتے ہوئے ڈرون حملوں کو موضوع بنا لیا اور جب ڈرون کا شکار ہونے والوں کی تصاویر یا ویڈیو دیکھتی تو دل تڑپ اٹھتا ،تب سوچا کہ اس دہشت گردی کے خلاف موثر عمل کیا جائے، اسی خیال سے ڈاکو منٹری بنائی،خود ایڈٹ کی، سکرپٹ لکھا، دو سال میں پاکستان کا سفر بھی کیا۔ڈاکومنٹری کا آغاز ہوا تو کچھ مت پوچھئے ، دل سوز مناظر دیکھتے ہوئے ایسا لگا کہ دل مٹھی میں ہی آ گیا ہو۔سائنس بذات خود اچھی یا بُری نہیں، اس کا استعمال اچھا یا بُرا ہے۔لوگوں کو خود بھی اور حکومتی سطح پر بھی لوگوں کی اخلاقی تربیت کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ سائنس کو پُرامن مقاصد ،تعلیم و ترقی اور خوشحالی کے لئے استعمال کیا جائے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.